Maktaba Wahhabi

85 - 382
(( اِذْہَبْ فَقَدْ اَنْکَحْتُکُہَا بِمَا مَعَکَ مِنَ الْقُرْاٰنِ )) [1] ’’جاؤ میں نے اس سے تمہارا نکاح اس قران کے عوض کردیا ہے جو تمھیں یاد ہے۔‘‘ ایجاب وقبول کا تعلق لڑکی سے یا لڑکے سے: سوال : لڑکے کی عمر ۱۱سال اور لڑکی کی عمر۹ سال تھی۔ اس وقت لڑکی نے نکاح نہ پڑھا، لڑکی کے باپ نے نکاح میں ہاں کردی۔ کیا اس طرح نکاح ہوجاتا ہے یا نہیں؟ اب لڑکی والے کہتے ہیں کہ ہماری لڑکی نے نکاح نہیں پڑھا، یہ نکاح نہیں ہے۔ نوٹ: لڑکی لڑکے کو چاہتی ہے، لڑکے نے خود پوچھا ہے۔ جب لڑکے کی بات ہوئی اس وقت لڑکے کی عمر ۱۷ سال ہوگئی تھی اور لڑکی کی عمر ۱۵ سال تھی۔ (سائل: سراج احمد، اٹک) (یکم جون ۲۰۰۷ء) جواب : لڑکی کے باپ کی اجازت سے نکاح پڑھایا ہوا درست ہے۔ کلمات ایجاب وقبول کا تعلق لڑکے سے ہے لڑکی کے والد سے نہیں وہ صرف اجازت دیتا ہے۔ کیا زبانی اقرار کیے بغیر صرف نکاح نامے پر دستخط کرنے سے نکاح ہو جائے گا؟ سوال : اگر کوئی آدمی نکاح نامے پر دستخط کردے اور اپنی زبان سے اس بات کا اقرار نہ کرے، جب کہا جاتا ہے کہ کیا آپ کو اس لڑکی کے ساتھ نکاح قبول ہے تو کیا اس طرح نکاح ہو جائے گایا نہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمادیں۔(ایک سائل) (۱۹ جنوری ۲۰۰۱ء) جواب : ظاہر ہے کہ نکاح نامے پر دستخط نکاح کی طلب کے بعد ہی کیے گئے ہوں گے ، لہٰذا یہ صورت قبول ہی کے قائم مقام ہے۔’’صحیح بخاری‘‘وغیرہ میں ہے کہ ایک شخص کا نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پر کیا تھا۔[2] کسی روایت میں یہ صراحت نہیں کہ ایجاب کے بعد اس نے کہا ہو کہ ’’مجھے قبول ہے ‘‘ حدیث ہذا میں اس کی چاہت ہی کو قبول کے برابر قرار دے کر انعقادِ نکاح کو قابلِ اعتبار سمجھا گیا ہے ۔’’صحیح بخاری‘‘میں ایک باب کا عنوان ہی یہ ہے کہ: (( باب إِذَا قَالَ الْخَاطِبُ لِلْوَلِیِّ زَوِّجْنِی فُلاَنَۃَ۔ فَقَالَ قَدْ زَوَّجْتُکَ بِکَذَا وَکَذَا۔ جَازَ النِّکَاحُ، وَإِنْ لَمْ یَقُلْ لِلزَّوْجِ أَرَضِیتَ أَوْ قَبِلْتَ۔)) ’’اگر منگنی کا پیغام دینے ولا لڑکی کے ولی سے کہے کہ اس سے میرا نکاح کردو اور ولی کہہ دے کہ اتنے حق
Flag Counter