|
النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ ﴾ (القصص: 29)
’’بیوی کو فرمایا: تم یہاں ٹھہرو، میں آگ لاتا ہوں، تاکہ تم اس سے ناپ سکو۔‘‘
وادی مقدس سے نبوت ملنے کے بعد مصر پہنچے، پورے مصر میں نماز کا کوئی ذکر نہیں۔ معلوم ہوتا ہے عجمی سازش نے قرآن عزیز پر بھی ہاتھ صاف کر لیا۔ عمادی صاحب کی درایت کا تقاضا تو یہی ہے، یا پھر موسیٰ علیہ السلام بزعم عمادی صاحب بے نماز ہوں گے!
عمادی صاحب بے خبر نہ ہوں گے، منکرین حدیث کا ایک گروہ موجودہ نماز کو بھی عجمی سازش کی پیداوار سمجھتا ہے۔ اس قوم کی درایت کا خدا حافظ، ایک نماز کو عجمی پیداوار سمجھتا ہے اور دوسرا حدیث کو اس لیے موضوع کہتا ہے کہ اس میں نماز کا ذکر نہیں! ﴿ مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ ﴾ (الصافات: 157)
سورہ کہف میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ایک شاگرد کی ایک علمی مہم کا ذکر ہے، جو مجمع البحرین تک کئی دن جاری رہی، پھر اس نیک آدمی کی معیت میں مظاہر قدرت دیکھنے کے لیے معلوم نہیں کتنی مدت سفر کیا، پھر یہ سفر معلم اور متعلم کی طبائع کے اختلاف کی وجہ سے ختم ہو گیا، لیکن پورے سفر میں نماز کا ذکر نہیں، حالانکہ اس وقت موسیٰ علیہ السلام بھی نبی تھے اور ان کا میزبان بھی نبی معلوم ہوتا ہے:
﴿فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا﴾ (الکہف: 65)
’’ان کی ملاقات! ہمارے ایسے بندے سے ہوئی، جسے ہم نے اپنی رحمت اور علم سے نوازا تھا۔‘‘
لیکن سفر کی پوری سرگزشت میں نماز کا کوئی تذکرہ نہیں۔ کیا فرماتے ہیں حضرات مدعیان درایت! یہاں بھی یہ عجمی قراء قرآن پر تو اپنا کام نہیں کر گئے؟
اس کے ساتھ ہی ذوالقرنین کے سفر کا تذکرہ ہے، [1] جو فتوحات کے سلسلہ میں مشرق سے مغرب اور جنوب سے شمال اور حدود چین تک فرمایا، قرآن نے اس کی ضروری تفصیلات اور اس وقت کے بین الاقوامی حالات کا تذکرہ کیا ہے اور ذوالقرنین کی دینی، قومی اور ملی خدمت کا مفصل جائزہ لیا ہے۔
عمادی صاحب فرمائیں! ذوالقرنین بے نمازی تھا یا قرآن بھی فارسی سازش کا شکار ہو گیا؟
|