Maktaba Wahhabi

104 - 90
کے زوجین میں رشتہ زوجیت کو بحال رہنے دیا، اور یہ کفارہ مرد ہی کو ادا کرنا ہوتا ہے بالکل اسی طرح ایک مجلس کی تین طلاق بھی ایک ’’منکر‘‘ اور ’’زور‘‘ بات ہے‘ اور دونوں کا نتیجہ زوجین میں جدائی ہے۔ پھر کیا زوجین کے تعلقات کو شرعی حکم یا دور نبوی صلی اللہ وسلم کے تعامل کے مطابق بدستور بحال رکھنے (یعنی اسے ایک رجعی طلاق قرار دینے پر) کفارہ کی ضرورت نہ ہو گی؟ دور نبوی میں یہ جرم چونکہ محدود پیمانہ پر تھا‘ لہٰذا رسول اﷲ صلی اللہ وسلم نے ازراہ شفقت اس کا کوئی کفارہ مقرر نہ فرمایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں یہ جرم بکثرت وقوع پذیر ہونے لگا تو آپ رضی اللہ عنہ ایسے شخص کی تین طلاق شمار کرنے کے علاوہ اسے بدنی سزا بھی دیتے اور حلالہ کی راہ بھی مسدود کر دیتے تھے۔ آج جب کہ لوگوں کا مبلغ علم ہی یہ ہے کہ جب تک تین طلاق نہ دی جائیں طلاق واقع ہی نہیں ہوتی اور بالعموم لکھ کر اکٹھی تین طلاقیں سپرد ڈاک کر دی جاتی ہیں‘ تو اس پھیلے ہوئے جرم کی روک تھام کے لیے اگر ہمارے مفتی حضرات بدنی سزا نہیں دے سکتے یا قانوناً حلالہ کو زنا قرار دے کر اس کی سزا نہیں دے سکتے ‘ تو کم از کم کفارہ تو تجویز فرما سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں ان دونوں اقسام جدائی (یعنی بذریعہ ظہار اور بذریعہ ایک مجلس کی تین طلاق) میں کئی طرح سے مشابہت بھی پائی جاتی ہے۔ لہٰذا اس کا کفارہ ظہار کے مطابق ہونا چاہیے۔ یعنی غلام آزاد کرنا یا متواتر دو ماہ کے روزے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا۔ آج کل غلامی کا دور بیت چکا ‘لہٰذا یہ شق خارج از بحث ہے۔ پھر آج کل افراط زر کی وجہ سے اکثر لوگوں کے لیے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی سزا کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ اندریں صورت میرے خیال میں متواتر دو ماہ روزے فی الحقیقت ایسا کفارہ ہے جس سے مجرم کو بھی اور دوسروں کو بھی عبرت حاصل ہو سکتی ہے۔ اگر ایک آدمی کو بھی ایسی سزا مل جائے تو عوام الناس کو یقینا اس بات کا فوری طور پر علم ہو جائے گا کہ بیک وقت تین طلاق دینا حرام اور گناہ کبیرہ ہے اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ لوگ شرعی طریقہ طلاق سیکھ کر اسے اپنا لیں گے اور نکاح حلالہ کی از خود حوصلہ شکنی ہوتی جائے گی۔
Flag Counter