Maktaba Wahhabi

48 - 90
کتابوں میں مذکور ہیں) پیش کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ ان اعتراضات یا جوابات جن کی تعداد دس تک جا پہنچی ہے، انہیں ہم ذیل میں درج کر کے ان کے جواب بھی لکھیں گے۔ یہ یاد رہے کہ ان اعتراضات یا جوابات میں سے پہلے تین جوابات ہمارے قاری عبدالحفیظ صاحب نے بھی ’’منہاج‘‘میں پیش فرمائے ہیں۔ (پہلا اعتراض ) یہ حدیث منسوخ ہے: حیرت ہے کہ حدیث تو منسوخ ہو گئی‘ مگر اس کا دور نبوی میں بھی کسی کو پتہ نہ چل سکا، دور صدیقی میں بھی اور دور فاروقی کے ابتدائی دو تین سال تک بھی۔ اور حدیث بھی ایسی جس کا تعلق زندگی کے ایک نہایت اہم گوشہ اور حلت و حرمت سے ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کونسی آیت یا حدیث اس حدیث کی ناسخ ہے؟ یا کیا یہ حدیث حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان سے منسوخ ہو گئی تھی؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو خود فرما رہے ہیں کہ لوگوں نے اس معاملہ میں جلدی کی‘ جس میں ان کے لیے مہلت تھی۔ تو کیا کسی منسوخ حکم میں بھی مہلت ہوا کرتی ہے؟ نیز حدیث رسول صلی اللہ وسلم کے لیے کسی امتی کا قول ناسخ کیونکر ہو سکتا ہے؟ (دوسرا اعتراض) یہ حکم غیر مدخولہ کا ہے: اس اعتراض کی بنیاد یہ ہے کہ ابوداؤد میں ایک حدیث اس مضمون کی بھی موجود ہے۔ (منہاج ایضاً) جواب: ابو داؤد میں اس مضمون کی دو روایات ہیں اور دونوں ’’ابو الصہباء عن ابن عباس رضی اللہ عنہ ‘‘ کی سند سے مروی ہیں۔ دوسری حدیث کا مضمون بالکل وہی ہے جیسا کہ ہم نے صحیح مسلم کی حدیث نمبر دو اوپر درج کی ہے۔ یعنی تین طلاقوں کو ایک شمار کرنے کا حکم ہر طرح کی مطلقہ کے لیے تھا۔ جب کہ ابوداؤد کی پہلی حدیث میں یہ صراحت ہے کہ غیر مدخولہ کی تین طلاقوں کو ایک بنایا جاتا تھا۔ اب دیکھئے تین احادیث صحیح مسلم میں ہیں۔ ایک حدیث نسائی میں اور ایک ابوداؤد میں، ان پانچ احادیث میں علی الاطلاق یہ ذکر ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک بنا دیا
Flag Counter