Maktaba Wahhabi

55 - 90
دوسرا اعتراض: یہ حدیث ابو دائود میں بھی مذکور ہے۔ اس میں تین طلاق کے بجائے ’’طلاق البتہ‘‘ کے الفاظ ہیں۔ ممکن ہے راوی نے طلاق البتہ سے تین طلاقیں سمجھ لی ہوں اور اپنی سمجھ کے مطابق بیان کر دیا ہو۔ جواب: ابو دائود میں اس سے ملتے جلتے ایک کے بجائے دو واقعات مذکور ہیں اب چونکہ ان تینوں احادیث میں لفظ رکانہ موجود ہے‘ لہٰذا خواہ مخواہ خلط مبحث سے اشتباہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ابوداؤد میں جو دو احادیث ہیں، وہ بھی الگ الگ واقع ہیں‘ جو درج ذیل ہیں: (۱) راوی نافع …… رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق البتہ دی۔ (۲) راوی ابن جریج …… ابو رکانہ نے ام رکانہ کو تین طلاقیں دیں۔ ابو دائود پہلی روایت کو بہتر قرار دیتے ہیں۔ لیکن ابن حجر عسقلانی کی تحقیق کے مطابق یہ دونوں ہی ضعیف ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلی ضعیف ہے اور دوسری ضعیف تر۔ رہی مسند احمد میں مندرج حدیث رکانہ تو وہ اسناد کے لحاظ سے ان دونوں سے بہت قوی ہے اور اس کی سند بھی بالکل الگ ہے۔ تیسرا اعتراض: اس حدیث کے راوی عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ ہیں۔ جن کا فتویٰ اس حدیث کے خلاف ہے۔ اس اعتراض کا جواب پہلے دیا جا چکا ہے، مختصراً یہ کہ راوی کی روایت کا اعتبار کیا جائے گا نہ کہ اس کے فتویٰ کا۔ چوتھا اعتراض: یہ مذہب شاذ ہے‘ اس لیے اس پر عمل نہ ہوگا۔ دوسرے الفاظ میں یہ اعتراض یوں ہے کہ یہ مذہب جمہور کے مذہب کے خلاف ہے‘ جس پر اتفاق ہے۔ اس شاذ مذہب یا جمہور کے اجتماع اتفاق پر ہم آگے چل کر تفصیل سے بحث کریں گے۔
Flag Counter