Maktaba Wahhabi

73 - 90
میں شیعہ حضرات بھی شامل ہیں۔ فقہ جعفریہ میں اس بات کی تصریح ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی ہیں۔ صاحب جواہر نے کہا ہے یہ مسئلہ اجماعی اور ضروریات شیعہ میں سے ہے۔ ’’صحیح زراہ‘‘ میں یہ روایت ہے کہ امام جعفر صادق سے اس مرد کے بارے میں سوال کیا گیا کہ جس نے حالت طہر میں ایک ہی مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہوں تو آپ نے فرمایا ’’طلاق ایک ہی واقع ہو گی۔‘‘ (منہاج‘ ص۳۰۶‘۳۰۷ ملخصاً) اب دیکھیے قاری صاحب نے ایک آیت اور دو حدیثوں سے اس مسئلہ کو جس قدر ثابت فرمایا اس کی وضاحت ہم پیش کر چکے ہیں۔ باقی اقتباس میں بھی آپ کئی خلاف واقعہ باتیں ارشاد فرما گئے۔ مثلا آپ فرما رہے ہیں کہ: ’’آنحضرت صلی اللہ وسلم کے زمانہ میں بھی اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمین کے زمانہ میں بھی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی تھیں‘ اور اس کے بعد اس پر اجماع ہو گیا۔‘‘ اب سوال یہ ہے کہ اجماع کی بات تو تب ہی فٹ بیٹھتی ہے ‘ جب پہلے اختلاف کی بات چل رہی ہو۔ ہمارے قاری صاحب محترم اختلاف کی بات تو کرتے نہیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی فرما رہے ہیں کہ ’’اس کے بعد اس پر اجماع ہو گیا‘‘ کیا یہ اجماع ایک ایسی بات پر ہوا تھا‘ جو پہلے سے ہی مسلّم چلی آرہی تھی؟ پھر یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ اگر دور نبوی صلی اللہ وسلم سے ہی تین طلاقوں کا تین ہی واقع ہونا مسلّم چلا آرہا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیا فرمان نافذ کیا تھا؟ اجماع یا اختلاف؟ حقیقت میں یہ بات یوں ہے کہ دور نبوی صلی اللہ وسلم سے لے کر دور فاروقی رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو تین سالوں تک حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی مرویات کے مصداق پوری امت کا اس بات پر اجماع تھا کہ ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا۔ پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مجلس کی تین طلاق کو تین ہی نافذ کر دیا‘ تو امت میں اختلاف واقع ہو گیا (جس کی پوری تفصیل آگے آرہی ہے) لیکن قاری صاحب نے بالکل الٹی گنگا بہانا شروع
Flag Counter