Maktaba Wahhabi

76 - 90
آخر میں آپ نے وہی بات کہہ دی جو ہم کہتے ہیں صبح کا بھولا اگر شام کو گھر آجائے تو اسے بھولا ہوا نہیں کہتے! تطلیق ثلاثہ سے متعلق چار گروہ: تطلیق ثلاثہ پر اجماع کی حقیقت کا اندازہ تو صرف اس ایک بات سے ہی ہو جاتا ہے کہ تطلیق ثلاثہ کے وقوع کے بارے میں مندرجہ ذیل چار قسم کے گروہ پائے جاتے ہیں: (۱) پہلا گروہ وہ ہے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلہ کو وقتی اور تعزیری سمجھتا ہے اور سنت نبوی کو ہر زمانہ کے لیے معمول جانتا ہے۔ اس کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی شمار ہوتی ہے۔ اس گروہ میں ظاہری ‘ اہل حدیث اور شیعہ شامل ہیں۔ نیز ائمہ اربعہ رحمۃ اللہ علیہ کے مقلدین میں سے بعض وسیع الظرف علماء بھی اس گروہ میں شامل ہیں اور بعض ’’اشد ضرورت کے تحت‘‘ اس کے قائل ہیں۔ (۲) دوسرا گروہ وہ مقلد حضرات کا ہے۔ یہ گروہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلہ کو تعزیری یا وقتی تسلیم نہیں کرتا‘ بلکہ اسے مشروع اور دائمی سمجھتا ہے۔ اس گروہ میں اکثریت مقلدین کی ہے، پھر مقلدین میں سے بھی کچھ بالغ نظر علماء اس مسلک سے اختلاف رکھتے ہیں۔ (۳) تیسرا گروہ وہ ہے جو دوسری انتہا کو چلا گیا ہے۔ ان کے نزدیک ایک مجلس میں ایک طلاق تو جائز ہے‘ لیکن اگر دو یا تین یا زیادہ دی جائیں تو ایک بھی واقع نہیں ہوتی۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک وقت میں ایک سے زیادہ طلاق دینا کار معصیت اور خلاف سنت یعنی بدعت ہے جس کے متعلق ارشاد ہے کہ: مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا هٰذَا مَا لَیْسَ مِنْهُ فَهُوَرَدٌّ جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی بات پیدا کی ‘ جو اس میں نہ تھی‘ تو وہ بات مردود ہے۔ تو اس لحاظ سے ایسی بدعی طلاقیں سب مردود ہیں‘ لغوہیں‘ باطل ہیں۔ لہٰذا ایک طلاق بھی نہ ہوگی۔ اس گروہ میں شیعہ حضرات میں سے کچھ لوگ شامل ہیں۔ حجاج بن ارطاۃ اور
Flag Counter