Maktaba Wahhabi

92 - 90
صرف ایک کی تھی اور باقی الفاظ تاکیدی تھے‘ یا وہ شخص یہ کہے کہ میں سمجھ رہا تھا کہ جب تک تین طلاق کا لفظ استعمال نہ کیا جائے‘ طلاق واقع ہی نہیں ہوتی‘ تو ان صورتوں میںطلاق ایک ہی شمار کی جانی چاہئے۔اور اگر اس کی نیت بھی فی الواقع تین کی ہی تھی تو پھر تین طلاقوں کو ایک قرار دینا میرے نزدیک صحیح نہیں‘‘ اور یہ ایسی بات تھی جس کے لیے فقہ حنفی میں گنجائش بھی موجود ہے۔ لیکن اس کے باوجود جناب عامر عثمانی صاحب مدیر (ماہنامہ ’’تجلی‘‘ دیوبند) نے عروج صاحب پر شدید گرفت کی اور فرمایا کہ ’’لوگوں کا جہل کسی فعل کی تاثیر میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ جیسے اگر کوئی شخص بھولے سے بھری ہوئی بندوق داغ دے اور گولی کسی انسان کے سینے میں لگ جائے تو وہ زخمی ہو ہی جائے گا۔ بھولے سے داغی ہوئی گولی بے اثر نہیں رہے گی۔‘‘ (مقالات ص۱۸۷) طلاق یا بندوق کی گولی؟ اس کے جواب میں عروج قادری صاحب نے جو مضمون لکھا اس کا عنوان ’’طلاق بندوق کی گولی نہیں ہے‘‘ تجویز فرمایا اور کئی مثالوں سے اس بات کی وضاحت فرمائی کہ فی الواقع طلاق بندوق کی گولی نہیں۔ اس مضمون کا آخری پیرا قابل ملاحظہ ہے۔ عروج قادری صاحب عامر عثمانی صاحب سے فرماتے ہیں: تواصوا بالتقلید: ’’جب آپ نے مجھے تقلید کو دانتوں سے پکڑنے کا مشورہ دیا تھا اور اپنی تقلید پسندی کا اقرار کیاتھا تو میں نے ہنستے ہوئے عرض کیا تھا کہ آپ کسی مسئلے میں تو مقلد جامد بن جاتے ہیں اور کسی میں مجتہد مطلق۔ اب مزید عرض کرتا ہوں‘ اگر میں تقلید کو دانتوں سے پکڑے رہتا تو مسلم شریف کی روایت پر وہ مقالہ کبھی تیار نہ ہوتا جس کو آپ نے بھی ’’بہت اچھا‘‘ کہا ہے اور آپ خود تقلید کو دانتوں سے نہ چھوڑتے تو طلاق نمبر مرتب نہ ہوتا۔‘‘ (مقالات صفحہ ۱۶۳) ان اقتباسات سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل علم حضرات کو اگرچہ کسی اشد ضرورت کے تحت
Flag Counter