Maktaba Wahhabi

202 - 348
”اور اگر کوئی عورت اپنے خاوند سے کسی قسم کی زیادتی یا بے رخی سے ڈرے تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ آپس میں کسی طرح کی صلح کر لیں۔اور صلح بہتر ہے۔“ یہ اس طرح کہ عورت اپنے کچھ حقوق سے نیچے آجائے تاکہ خاوند اسے طلاق نہ دے،جس طرح کے سودہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس سے مراد ایسی عورت ہے جو ایک آدمی کے پاس ہو اور وہ اس کی زیادہ چاہت نہ رکھتا ہو،وہ اسے طلاق دے کر کسی اور سے نکاح کرنا چاہتا ہو،عورت اس سے کہے مجھے اپنے پاس رکھو یا طلاق نہ دو،پھر کسی اورسے شادی بھی کرلو،تمھیں میرے نان ونفقہ اورتقسیم کے بارے میں پورااختیار ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ((وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِن بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا ( (النساء:128) ”اور اگر کوئی عورت اپنے خاوند سے کسی قسم کی زیادتی یا بے رخی سے ڈرے۔“ ایک دوسری روایت میں ہےکہ فرماتی ہیں:وہ ایسا آدمی ہے جو اپنی بیوی میں کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھتا ہے،جس طرح کہ بڑھاپا وغیرہ اور اسے جدا کرنے کا ارادہ کر لیتا ہے، تو وہ کہتی ہے ،مجھے روک لو اور جو چاہے میرے لیے تقسیم کرو،کہتی ہیں اگر وہ دونوں رضامند ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔(اللجنة الدائمة:15920) 214۔بیوی کو خاوند کے خلاف کرنے کا حکم۔ بیوی کو خاوند کے خلاف خراب کرنا حرام ہے، اس کی ممانعت میں کئی دلائل ہیں، اس کا ارتکاب کرنے والا اپنے برے فعل کی وجہ سے فاسق اور گنہگار ہے۔(اللجنة الدائمة:9842)
Flag Counter