Maktaba Wahhabi

211 - 348
پھر فرمایا: ((وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ)) (الطلاق:4) ”اور جو حمل والی ہیں ان کی عدت یہ ہے کہ وہ اپنا حمل وضع کردیں۔“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”مره“یعنی اپنے بیٹےعبد اللہ کو حکم دے کہ اپنی بیوی سے رجوع کرے،پھر حالت طہر یا حمل میں اسے طلاق دے، اور اس پر اجماع ہے کہ کتاب و سنت کے ثبوت کے ساتھ حاملہ کو طلاق ہو جاتی ہے،جو بات عوام کے ہاں مشہور ہے کہ حاملہ کو طلاق نہیں ہوتی اس کی کوئی حقیقت نہیں اور نہ ہی اہل علم میں سے کسی نے یہ بات کہی ہے، بلکہ حاملہ پر طلاق واقع ہوگی اور اس کی عدت وضع حمل ہے، حتی کہ فرض کریں اگرایک آدمی اپنی حاملہ بیوی کو صبح کے وقت طلاق دیتا ہے اور ظہر سے پہلے بچہ پیدا کر دیتی ہے تو اس کی عدت ختم ہو جائے گی، اور اگر اس کا وضع حمل لیٹ ہو جاتا ہے،دس ماہ یا بارہ ، یا چھ ماہ اور یا دو سال تک تو وہ تب تک عدت میں ہی رہے گی، اور جب بچہ جنم دے گی تو اس کی عدت ختم ہو جائے گی، اب خاوند صرف عقدِ جدید کی صورت میں رجوع کر سکتا ہے، بشرطیکہ آخری طلاق نہ ہو۔ (ابن عثيمين :نور علي الدرب:1) 225۔نشے کی حالت میں طلاق۔ نشے کی حالت میں طلاق واقع ہوتی ہے،کہ نہیں؟ اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے،حنابلہ کا مشہور مذہب یہ ہے کہ سزا کے طور پر یہ طلاق واقع ہو جائے گی،جبکہ بعض علماء کے بقول یہ طلاق واقع نہیں ہوگی، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے یہی مروی ہے اور قیاس کے زیادہ قریب بھی ہے، اس لیے کہ نشے کی حالت
Flag Counter