Maktaba Wahhabi

212 - 348
میں اسے کچھ یاد نہیں کہ کیا کہہ رہا ہے اور نہ جانتا ہے کہ کیا کہنا ہے؟تو پھر اس پر ایسی چیز کو کیوں لازم قراردیا جائے جسے وہ جانتا ہی نہیں؟ فرمان باری تعالیٰ ہے: ((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ)) (النساء:43) ”اے لوگوجو ایمان لائے ہو،!نماز کے قریب نہ جاؤ، اس حال میں کہ تم نشے میں ہو، یہاں تک کہ تم جانو جو کچھ کہتے ہو۔“ آیت کریمہ میں دلیل ہے کہ نشہ کرنے والا جو کہہ رہا ہے اسے کچھ معلوم نہیں تو ہم اس پر ایسی چیز کو لازم کیوں کریں جس کا اسے علم ہی نہیں ؟ حنابلہ کا یہ کہنا کہ یہ بطور سزا کے ہے، تو واضح رہے کہ شرابی کی سزا صرف اس کی اپنی ذات تک ہے، اسے زدو کوب کیا جائے، جیسا کہ سنت سے ثابت ہے اور اگر طلاق واقع کرنے سے اسے سزا دیں تو یہ سزا اس کی بیوی تک متعدی ہو جائے گی، اگر اولاد بھی ہوئی تو خاندان اجڑ جائے گا اور نقصان دوسروں تک متعدی ہو جائے گا،سو درست بات یہ ہے کہ نشے کی حالت میں طلاق نہیں ہوگی اور نہ ہی اس کے اقوال معتبر ہوں گے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ شرعی عدالت کی طرف بھی رجوع کیا جائے ،تاکہ ہم بیوی کے اس کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کے متعلق حکم شرعی سے ہی فیصلہ کریں جس سے اختلاف ہو جائے۔ (ابن عثيمين :نور علي الدرب:1) 226۔ پاگل کی طلاق۔ پاگل اور مجنون آدمی کی طلاق واقع نہیں ہو گی، کیونکہ عقل کے زائل ہونے کی وجہ سے وہ غیر مکلف ہو چکا ہے،اس بارے حدیث بھی ہے کہ حضرت
Flag Counter