Maktaba Wahhabi

243 - 348
271۔حائضہ عورت کا خلع۔ جب طلاق عوض کی بنیاد پر ہوتو حالت حیض میں طلاق میں کوئی حرج نہیں، مثال کے طور پر میاں بیوی کے درمیان جھگڑا اور ناچاقی ہے تو خاوند عوض لے کر اسے طلاق دے سکتا ہے،یہ جائز ہے،چاہے وہ حیض میں ہی ہو، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ ثابت بن قیس بن شماس کی بیوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اس کے دین اور اخلاق میں عیب جوئی نہیں کرتی لیکن اسلام میں ناشکری نہیں کرتی، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو اس کا باغ واپس کرے گی؟ اس نے کہا: ہاں، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں پوچھا کہ وہ حائضہ ہے یا طہر میں؟ اور اس لیے بھی کہ یہ طلاق تو عورت کے اپنی جان کے فدیے کے بطور تھی،تو یہ جس حالت میں بھی ہو بوقت ضرورت جائز ہے۔ امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ نے”المغنی“ میں کہا: حالت حیض میں خلع کے جواز کی علت بیان کرتے ہیں کیونکہ حیض میں طلاق کی ممانعت کا سبب وہ شرہے جو عورت کو عدت کے طویل ہونے کی بنا پر لاحق ہوتا ہے اور خلع اس تکلیف کو ختم کرنے کی وجہ سے ہے،جو اسے ناچاقی کے سبب لا حق ہوا ہے، نیز ایسے شخص کے ساتھ رہنے سے جسے وہ ناپسند کرتی ہے اور یہ لمبی عدت کے نقصان سے بڑا نقصان ہے، تو بڑی خرابی کو چھوٹی کے ذریعہ ختم کرنا جائز ٹھہرا، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی خلع کرنے والی سے حالت کے متعلق دریافت نہیں فرمایا۔ (ابن عثيمين :مجموع الفتاويٰ والرسائل:11/236) 272۔خلع کرنے والی عورت کی عدت۔ علماء نے اختلاف کیا ہے کہ خلع کرنے والی عورت تین حیض عدت
Flag Counter