Maktaba Wahhabi

298 - 348
”تومعروف طریقے کے مطابق اتنا لے لے جتنا تجھے اور تیرے بیٹے کو کفایت کرجائے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی کہ اپنے خاوند کے مال میں سے اتنا لے لے جتنا اسے اور اس کے بیٹے کے لیے کافی ہو،چاہے اسے علم ہویا نہ ہو۔ اس عورت کے سوال میں ایک بات یہ ہے کہ وہ اپنے خاوند کے سامنے قسم اُٹھاتی ہے کہ اس نے کچھ نہیں لیا،اس کی یہ قسم حرام ہے،الا یہ کہ وہ تاویل کرلے یعنی وہ نیت یہ کرے کہ اللہ کی قسم میں نے کچھ نہیں لیا،یعنی اللہ کی قسم میں نےایسی کوئی چیز نہیں لی جس کا لینا مجھ پر حرام ہو یا اللہ کی قسم میں نے اس خرچ سے زیادہ نہیں لیاجتنا کہ تجھ پر واجب ہے،یاایسی ہی کوئی تاویل جوشرعاً اس کے استحقاق کے مطابق ہو،اس لیے کہ جب انسان مظلوم ہو تو تاویل جائز ہے،لیکن اگر انسان ظالم ہوتو پھر تاویل کی گنجائش نہیں ہوتی،ایسی عورت جس کا خاوند بخل سے کام لیتاہے اور اسے اتنا خرچ نہیں دیتا جو اسے اور اس کی اولاد کو کافی ہوتو وہ مظلوم عورت ہے،اس کے لیے تاویل جائز ہے۔(ابن عثيمين :نورعلي الدرب:7) 353۔خاوند کےمال سے بیوی کا علاج معالجہ۔ کتاب وسنت میں احسان کرنے اور عام لوگوں سے اور رشتہ داروں سے بالخصوس اچھاسلوک کرنے کے دلائل بکثرت موجود ہیں۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ((إِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ)) (النحل:90) ”بے شک اللہ تعالیٰ عدل اور احسان اور قرابت والے کو دینے کا حکم دیتا ہے۔“
Flag Counter