Maktaba Wahhabi

60 - 348
((وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚ)) (لنساء:24) ’’اور تمھارے لیے حلال کی گئی ہیں جو ان کے سوا ہیں کہ اپنے مالوں کے بدلے طلب کرو، اس حال میں کہ نکاح میں لانے والےہو،نہ کہ بد کاری کرنے والے ۔‘‘ اس لیے بھی کہ بغیر حق مہر کے محض ہبتاً نکاح صرف اور صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے۔فرمان ربانی ہے: ((وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ)) (الأحزاب:50) ’’ اور کوئی مومن عورت اگر وہ اپنا ہبہ نبی کو ہبہ کردے،اگر نبی چاہے کہ اسے نکاح میں لے لے،یہ خاص تیرے لیے ہے،مومنوں کے لیے نہیں۔‘‘ (اللجنة الدائمة:1943) 26۔عورت نکاح کے کچھ عرصہ بعد حق مہر کا مطالبہ کرتی ہے۔ عورت حق مہر کا استحقاق رکھتی ہے،وہ جب بھی مطالبہ کرے خاوند کے ذمہ ہے کہ اس جیسی دیگر عورتوں کی مانند اس حق مہر ادا کرے،کیونکہ حق مہر شرمگاہ سے استفادہ کے عوض خاوند پر عائد ہوتا ہے،اگر عورت از خود سارایا کچھ حق مہر معاف کردے تو جائز ہے،یہ چیز صحت نکاح پر بھی اثر انداز نہیں ہوگی۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ((وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ
Flag Counter