Maktaba Wahhabi

169 - 379
بنا بریں عیسائی سالِ نو کے آغاز پر اس طرح کے مظاہرے مغرب زدہ طبقے کے ذہنی ارتداد و بغاوت کے غَمّاز ہیں جن کی اسلامی ملکوں میں قطعاً اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ہم مسلمانوں کے سالِ نو کا آغاز یکم محرم سے ہوتا ہے جو چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک حرمت والا مہینہ ہے۔ اور حرمت والے مہینے کا مطلب ہے کہ اس مہینے میں جدال و قتال، قتل و غارت گری اور اس طرح کی دیگر بری حرکتوں کے ارتکاب کی اجازت نہیں ہے۔ ان کاموں کی اجازت تو اگرچہ کسی وقت بھی نہیں ہے لیکن حرمت والے مہینوں میں ان باتوں کی شناعت و قباحت دو چند ہو جاتی ہے۔ اس لیے اصل ضرورت تو اس بات کی ہے کہ ہم مسلمان اپنے سالِ نَو کے آغاز پر یہ عہد کریں کہ ہم اللہ کی حرمتوں کو پامال نہیں کریں گے، اللہ کی حدود کو نہیں توڑیں گے، حلال و حرام کی پابندی کریں گے اور غم و حزن کی کیفیت ہو یا طرب و مسرت کا لمحہ، ہم کسی حالت میں بھی شریعت کی حدود سے تجاوز نہیں کریں گے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم پر تبرا بازی اور اس کا رد عشرئہ محرم میں عام دستورو رواج ہے کہ واقعات کربلا کو مخصوص رنگ اور افسانوی و دیومالائی انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔ دشمنانِ صحابہ تو اس ضمن میں جو کچھ کرتے ہیں وہ عالم آشکارا ہے لیکن بدقسمتی سے بہت سے اہل سنت کے واعظان خوش گفتار اور خطیبان سحر بیان بھی گرمیٔ محفل اور عوام سے دادو تحسین وصول کرنے کے لیے اسی تال سر میں ان واقعات کا تذکرہ کرتے ہیں جو مخصوص گروہ کی ایجاد اور ان کی انفرادیت کی غماز ہے۔ اس سانحۂ شہادت کا ایک پہلو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم پر تبرا بازی ہے جس کے بغیر ’’محفل
Flag Counter