Maktaba Wahhabi

357 - 360
کرنے والوں میں سے عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوا کسی ایک نے بھی مکہ سے باہر نکل کر واپس آکر عمرہ نہیں کیا۔ عمرہ مکیہ والوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے قصے ہی سے استدلال کیا ہے، لیکن اس میں ان کے لیے کوئی دلیل نہیں۔‘‘[1] ۴: شیخ ابن باز سابق مفتی ٔاعظم سعودی عرب بیان کرتے ہیں: جو لوگ حج کے بعد تنعیم یا جعرانہ وغیرہ سے بکثرت عمرہ کرتے ہیں، تو اس کی مشروعیت کی کوئی دلیل نہیں۔ رہا تنعیمسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا عمرہ کرنا، تو وہ محض اس سبب سے تھا، کہ وہ جب مکہ تشریف لائیں، تو اپنے ایامِ ماہواری کی بنا پر وہ عمرہ نہ کرسکیں تھیں، اس لیے انہوں نے اپنے اس عمرہ کے عوض، جس کے لیے وہ میقات سے احرام باندھ کر آئیں تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی اجازت دے دی، اس طرح ان کے دو عمرے ہوگئے، پہلا عمرہ تو ان کے حج کے ساتھ اور یہ ایک الگ عمرہ۔ لہٰذا جس کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جیسا عذر پیش ہو، اس کے لیے اجازت ہے، کہ حج سے فارغ ہونے کے بعد عمرہ کرے۔ بلاشبہ حج کے بعد حجاج کا اس نئے عمرے کے لیے مشغول ہونا سب کے لیے تکلیف کا باعث ہے، جس سے بھیڑ میں اضافہ ہوتا ہے اور حادثات بھی ہوتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی مخالفت بھی ہوتی ہے۔ واللہ الموفق۔[2] ۷: بوقتِ ضرورت حائضہ کا طوافِ افاضہ کرنا: متعدد احادیث میں یہ بات واضح طور پر بیان کی گئی ہے، کہ ماہواری والی خاتون
Flag Counter