Maktaba Wahhabi

108 - 114
ہیں،سنّت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم اور تعاملِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے علاوہ جمہورآئمہ اور علماء ِ امّت کے بھی خلاف ہے،بلکہ صحیح تویہ ہے کہ یہ فعل وہم یا وسواس کا نتیجہ ہے۔ [1] تکبیر اوررَفع یدین کا وقت : یہاں ایک یہ بات بیان کردینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ رفع یدین کرنے کے وقت کے بارے میں تین طرح کی احادیث موجود ہیں : ان میں سے ایک تو وہ احادیث ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر کہنے کے سا تھ ہی رفع یدین کرتے تھے۔ بیک وقت تکبیر کہنے اور رفع یدین کرنے کا پتہ دینے والی احادیث میں سے ایک صحیح بخاری شریف اور دیگر کتب ِحدیث میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے جس میں وہ بیان فرماتے ہیں : ((أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم کَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ حَذْوَ مَنْکِبَیْہِ اِذَاالصَّلوٰۃَ))۔ [2] ‘’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آغازِنماز کے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھاتے تھے۔‘‘ اس حدیث [یَرْفَعُ یَدَیْہِ…اِذَا افْتَتَحَ الصَّلٰوۃَ]کے الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ تکبیر اور رفع یدین دونوں فعل ایک ہی وقت میں ہوں گے،اور امام بخاری رحمہٗ اللہ نے اپنی صحیح میں اس حدیث پر یوں عنوان قائم کیا ہے : [بَابُ رَفْعِ الْیَدَیْنِ فِيْ التَّکْبِیْرَۃِ الْأُوْلیٰ مَعَ الْاِفْتِتَاحِ سَوَاء اً۔] ’’اس بات کا بیان کہ افتتاح وآغازِ نماز کے وقت تکبیرِ اولیٰ اور رفع یدین بیک وقت (اکٹھی ہی) ہونی چاہیئیں۔‘‘
Flag Counter