Maktaba Wahhabi

28 - 114
علّامہ سندھی رحمہ اللہ کا جو تبصرہ ہم نے آپ کے سامنے پیش کیا ہے وہ اِس حدیث ِ وائل رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی ذکر کیا جاسکتا ہے کیونکہ انھوں نے حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور حضرت وائل رضی اللہ عنہ دونوں کو شامل کیا ہے اور لکھا ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری سال میں نماز پڑھی تھی اور ان کا رفع الیدین کی روایت بیان کرنا اِس کے دوام و بقاء اور عدم نسخ کی بیّن دلیل ہے۔ طُرفہ و لمحۂ فکریہ : یہ حدیث ِ وائل رضی اللہ عنہ وہی حدیث ہے،جسے خود مانعین ِ رفع یدین نے بھی مانا ہے۔ اور اس کی صحت پر کوئی اعتراض نہیں کیا،بلکہ جب تکبیر ِ تحریمہ کے وقت ہاتھوں کو اٹھانے کی مقدار ذکر کرنا ہو،تو مانعین ِ رفع یدین بطور ِ دلیل یہی حدیث پیش کرتے ہیں،جس میں کانوں تک ہاتھ اٹھانے کا ذکر آیا ہے،اور کندھوں تک کا پتہ دینے والی حدیث ِ ابن عمر رضی اللہ عنہماکو چھوڑ دیا جاتا ہے،جوکہ صحیح بخاری کی حدیث ہے۔[1] حضرت ابن عمررضی اللہ عنہماملازم ِ صحبت بھی تھے،اِس کے باوجود ان کی حدیث پر حضرت وائل بن حُجر رضی اللہ عنہ کی کانوں تک ہاتھ اُٹھانے والی حدیث کو ترجیح دی گئی ہے۔ حالانکہ ان دونوں میں کوئی تعارض بھی نہیں،بلکہ ان دونوں کو مختلف احوال و مواقع پر محمول کیا جاسکتا ہے،کیونکہ اس معاملہ میں وسعت ہے،حصر وتحدید نہیں۔ اور خود علّامہ سندھی نے حاشیہ سنن نسائی میں کندھوں یا کانوں تک ہاتھ اٹھانے والی احادیث میں تعارض و منافاۃ نہ پائے جانے کے سلسلہ میں لکھا ہے : ( فَلاَ مُنَافَا ۃَ بَیْنَ الرَّفْعِ اِلٰی الْمَنْکِبَیْنِ أَوْاِلٰی شَحْمَۃِ الْأُذُنَیْنِ أَيْ أَعَالِیْھَا وَ قَدْ ذَکَرَ الْعُلَمَائُ فِي التَّوْفِیْقِ بَسْطاً لَاحَاجَۃَاِلَیْہِ،لِکَوْنِ التَّوْفِیْقِ فَرْعُ التَّعَارُضِ وَلاَ یَظْھَرُ التَّعَارُضُ أَصْلاً )۔ [2]
Flag Counter