Maktaba Wahhabi

32 - 114
ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی نے بھی تحقیق ابن خزیمہ میں اس حدیث کو صحیح کہا ہے،اور شیخ احمد عبد الرحمٰن البنّاء کی الفتح الربانی سے تصحیح نقل کی ہے۔[1] شیخ شعیب الارناؤوط نے تحقیق صحیح ابن حبان۔ الاحسان۔ میں مذکورہ مقام پر اس کی سند کو قوّی قرار دیا ہے۔ ان سب کبار اہل ِ علم نے تو اس حدیث کو صحیح و قوّی قرار دیا ہے،البتہ بعض لوگوں نے اس حدیث کی مختلف اسناد اور طُرق سے لا علمی کی بناء پر یا کسی دوسری وجہ سے اس کی سند میں اضطراب ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے،اور لکھا ہے کہ حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ ملازم ِصحبت نہیں تھے۔ اور اس حدیث سے ہی یہ بات بھی کشید کی ہے کہ حضرت ابو حمید رضی اللہ عنہ کی مجلس والے دوسرے صحابہ کا عمل رفع یدین نہ کرنا تھا،حالانکہ یہ تینوں باتیں یا اعتراضات بیجا و غیر صحیح ہیں،جن کی تفصیل حضرت العلّام حافظ محمد محدّث گوندلوی رحمہ اللہ کی کتاب التحقیق الراسخ فی انّ احادیث رفع الیدین لیس لھا ناسخ اور ’’مسئلہ رفع الیدین پر محقّقانہ نظر‘‘ (ص:۷۰۔۷۶) پر دیکھی جاسکتی ہے،اور آخر الذکر بات کا جواب آئندہ ہماری گفتگو میں بھی آجائے گا۔ اِنْ شَآئَ اللّٰہ بریلوی حکیم الامّت کی نرالی تحقیق : یہاں ہم بریلوی حکیم الامت مفتی احمد یار بدایونی [گجرات] کی ایک نرالی تحقیق کا نمونہ پیش کردینا مناسب سمجھتے ہیں کہ انھوں نے اپنی کتاب جاء الحق کے حصہ دوم (ص: ۲۶۔۴۲) میں قراء ت فاتحہ خلف الامام کے مسئلہ پر بحث کی ہے۔ یوں تو کتاب کے جملہ مندرجات دیکھنے سے پہلے ہی اس حقیقت کا انکشاف ہوجاتا ہے کہ اس کتاب کا نام ’’جاء الحق‘‘ دراصل ع ’’نہند نام ِ زنگی کافور‘‘ کے مصداق ہے،کیونکہ اس میں حقائق کو نہایت توڑ پھوڑ کر بیان کیا گیا ہے۔اور اس چیز کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسی کتاب کے رد ّمیں شیخ الحدیث مولانا
Flag Counter