Maktaba Wahhabi

94 - 114
اور علّامہ ابن رشد نے بدایۃ المجتھدمیں مختلف اقوال نقل کرکے لکھا ہے : ( وَالسَّبَبُ فِيْ اِخْتِلَافِہِمْ فِيْ حَمْلِ رَفْعِ الْیَدَیْنِ فِيْ الصَّلوٰۃِ ھَلْ ھُوَ عَلیٰ النُّدُبِ أَوْ عَلیٰ الْفَرْضِ؟ھُوَالسَّبَبُ الَّذِيْ قُلْنَاہُ قَبْلُ مِنْ أَنَّ بَعْضَ النَّاسِ یَرَیٰ أَنَّ الْأَصْلَ فِيْ أَفْعَالِہٖ صلي اللّٰه عليه وسلم أَنْ تُحْمَلَ عَلیٰ الْوُجُوْبِ حَتّٰی یَدُلَّ الدَّلِیْلُ عَلیٰ غَیْرِ ذَالِکَ،وَمِنْھُمْ مَنْ یَّرَیٰ أَنَّ الْأَصْلَ أَنْ لاَ یُزَادَ فِیْمَا صَحَّ بِدَلِیْلٍ وَاضِحٍ مِنْ قَوْلٍ ثَابِتٍ أَوْاِجْمَاع ٍ أَنَّہٗ مِنْ فَرَائِضِ الصَّلوٰۃِ اِلَّا بِدَلِیْلٍ وَاضِح ٍ )۔ [1] ’’آئمہ کے مابین رفع یدین کے حکم میں اختلاف کا سبب یہ ہے کہ اس کے حکم کو ندب پر محمول کیا جائے یا فرضیت پر؟اور یہی سبب ہے کہ جس کے بارے میں ہم پہلے بھی ذکر کرچکے ہیں کہ بعض علماء کا کہنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کو وجوب پرمحمول کیا جائے الّا یہ کہ کوئی دلیل اس کے بر عکس ہو۔ اور بعض نے کہا ہے کہ نماز کے فرائض میں سے جو امور صحیح حدیث یا اجماع سے ثابت ہیں ان میں کسی واضح دلیل کے سوا کسی امر کا اضافہ نہ کیا جائے۔‘‘ خلاصہ: ان سب اقوال کا مجموعی مفاد یہ ہے کہ رفع یدین نماز کا رکن یا صحتِ نماز کی شرط تو نہیں،اسی طرح اسے فرض و واجب بھی نہ کہئیے کہ اس کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی۔ان دونوں اقوال کے مقابلہ میں دوسری طرف یہ قول کہ اسے محض استحباب و ندب کا حکم دے دیا جائے،تو یہ بھی اس کے شایانِ شان نہیں،بلکہ بکثرت احادیث کہ جن کے مجموعہ کو متواتر شمار کیا گیاہے،ان کا تقاضا ہے کہ رفع یدین کو سنّت ِ ثابتہ و مؤکّدہ اور غیر متروکہ و غیر منسوخہ مانا جائے اور اس سنّت پر عمل کیا جائے۔ وَاللّٰہُ الْمُوَفِّقُ
Flag Counter