Maktaba Wahhabi

114 - 380
چھوٹا عمرہ، بڑا عمرہ۔۔۔؟ یہیں اس بات کی وضاحت بھی کردیں کہ حرم کے قریب کرائے کی گاڑیوں والے کاروباری ڈرائیور لوگ یہ آوازیں لگاتے سنائی دیتے ہیں: چھوٹا عمرہ، بڑا عمرہ۔ اور ہمارے لوگ ان کے ساتھ سوار ہوکر بار بار عمرہ کرتے رہتے ہیں اوراپنے عزیز واقارب کی طرف سے درجنوں عمرے کرتے ہیں حالانکہ ان کے اس فعل کا شرعاً کوئی ثبوت نہیں۔ اس سلسلے میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مجموع فتاویٰ میں لکھا ہے: ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم مکہ مکرمہ سے نکل کر عمرہ نہیں کیاکرتے تھے سوائے عمرۂ عائشہ رضی اللہ عنہا کے۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب مکہ مکرمہ میں مقیم ہوتے توبکثرت طواف کیاکرتے تھے۔ مکی عمرہ (چھوٹے عمرے یا بڑے عمرے) سے طواف کی کثرت ہی افضل ہے۔‘‘ چھوٹے اوربڑے عمرے کی بابت موصوف لکھتے ہیں کہ حج سے فارغ ہونے کے بعد یہ لوگ جو ماہ ذوالحج میں بکثرت عمرے کرتے ہیں، سلف صالحین ایسا نہیں کیاکرتے تھے۔ پھر آگے لکھا ہے کہ حج کے بعد عمرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا اور اس پر تمام علمائے امت کا اتفاق ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوا کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے بھی نہیں کیا اور نہ ہی خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم ایساکیا کرتے تھے ۔ عمرۂ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں انھوں نے علماء کا یہ قول نقل کیا ہے کہ انھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عمرہ محض ان کی تطییبِ خاطر کے لیے کرایا تھا کہ ان کے دل میں تشنگی نہ رہے کہ میں نے حج کے ساتھ دوسرے صحابہ وصحابیات رضی اللہ عنہن کی طرح عمرہ نہیں کیا۔ (ملخصا ًاز مجموع فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیۃ: ۲۶/ ۴۴۔ ۴۸) اس تفصیل سے ہمارے لوگوں کے ان چھوٹے اوربڑے عمروں کا بے اصل ہونا ثابت ہوگیا لہٰذا کوشش یہ کرنی چاہیے کہ قیامِ مکہ کے دوران بکثرت طواف کیا جائے نہ کہ عمرے۔
Flag Counter