Maktaba Wahhabi

148 - 380
غلط فہمی کی وجہ دراصل ان دونوں لفظوں کے عربی اوراردو میں مفہوم ومدلول کافرق یاعدم فرق ہے ۔ ہم عربی اور اردو دونوں میں ہی ان الفاظ کامفہوم ایک سمجھ لیتے ہیں جس کے نتیجے میں مذکورہ صورتِ حال پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ خواتین جو ویسے ہی پردے سے بیزار ہوتی ہیں انھیں جب حج وعمرہ کی سعادت نصیب ہو تو وہاں یہ مسئلہ ان کے ہاتھ آجاتا ہے کہ احرام کی حالت میں نقاب اور برقع منع ہیں جبکہ حقیقت قطعاً اس سے مختلف ہے ۔ لغوی تشریح: عربی زبان کی بیس جلدوں پر مشتمل ایک عظیم وضخیم ڈکشنری ’’لسان العرب‘‘ ہے، اس میں ان الفاظ کالغوی معنیٰ دیکھا جا سکتا ہے۔ چنانچہ اس کتاب کی جلد دوم (ص: ۲۶۵، ۲۶۶) میں ان الفاظ پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ اس کتاب کے مؤلف علامہ ابن المنظور افریقی لکھتے ہیں: ’’نقاب ‘‘سے مراد اوڑھنی کاوہ حصہ ہے جو ناک کے بانسے پر پڑتا ہے اور اس کی کئی اشکال ہیں: 1۔اگر عورت اپنے نقاب کو صرف آنکھوں تک ہی گرائے تو وہ ’’وصوصہ ‘‘یا ’’برقع‘‘ ہے۔ 2۔اگر آنکھوں کے گڑھوں کی نچلی سطح تک گرائے تو وہ ’’نقاب ‘‘ہے۔ 3۔اور اگر ناک تک ہو تو وہ ’’لکفام‘‘کہلاتا ہے۔ اسے نقاب اس لیے کہاگیا ہے کہ اپنے رنگ سے عورت کے (چہرے کے )رنگ کو چھپا دیتا ہے۔‘‘ (مختصراً از لسان العرب: ۲/ ۲۶۵، ۲۶۶ ومناسک الحج والعمرۃ للألباني، ص: ۱۱، عربی، و اُردو مترجم از راقم الحروف، ص: ۴۶، ۴۷) اس مختصر سی لغوی تشریح سے معلوم ہوا کہ ہم جسے برقع یانقاب کہتے ہیں اس کا بعینہٖ وہ مفہوم ومدلول عربی میں مراد نہیں ہے بلکہ ہر دوزبانوں میں خاصا فرق ہے ۔
Flag Counter