Maktaba Wahhabi

239 - 380
ہونا ضروری یا اس کے آداب میں سے سمجھتے ہیں حالانکہ ایسا ہر گز نہیں، یہ محض جائز تو ہے ضروری نہیں۔ (بخاري شریف باب ما جاء في زمزم، وفتح الباري: ۳/ ۴۹۲۔۴۹۳) زم زم میں کفن یا نقدی بھگونا: بعض حُجاجِ کرام بلکہ اکثر لوگ برکت کی غرض سے کفن کے کپڑے تھانوں کے حساب سے بھگو کر لاتے ہیں اوران کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ زم زم میں تر کیے ہوئے کپڑوں میں مُردوں کوکفنانا باعثِ نجات ہے، حالانکہ یہ سراسر عبث اور لا اصل بات ہے۔ اگر عقائد واعمال درست نہیں تو یہ کفن بھی کسی کام نہیں آسکتا۔ نجات کا دارومدار اللہ کی نظرِ کرم اور پھر اعمالِ صالحہ پر ہے۔ کفن کو زم زم میں بھگو لینے، کفن پر کچھ لکھ دینے یا تعویذ گنڈوں سے یہ کام چل سکتا ہوتا تو پھر کسی کو عمل کی ضرورت ہی کیا تھی؟ بے عملی کا تو پہلے ہی دور دورہ ہے۔ ایسے نظریات بے عملی پر مزید اکسانے کاسبب بنتے ہیں۔ اورپھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین عظام کسی سے بھی زم زم میں کپڑوں کوبھگونے اورنقدی سکوں کو ڈبونے کاثبوت نہیں ملتا۔ (السنن والمبتدعات، ص: ۱۱۳ بحوالہ حجۃ النبي ص: ۱۱۹) سنن دار قطنی اور مستدرک حاکم میں مذکور ایک ضعیف روایت (کما في إرواء الغلیل ۴/ ۲۳۲، ۲۳۳) سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما آبِ زم زم پیتے وقت یہ دعا کیاکرتے تھے : (( الَلّٰھُمَّ اِنِّيْ أَسْئَلُکَ عِلْماً نَافِعاً وَرِزْقَاً وَاسِعاً وَشِفَائً مِّنْ کُلِّ دَائٍ )) [1] ’’اے اللہ! میں تجھ سے نفع بخش علم، وسیع رزق اورہر قسم کی بیماری سے شفاء کاسوال کرتا ہوں۔‘‘
Flag Counter