Maktaba Wahhabi

263 - 380
بلکہ اگر مجبوری کی بنا پر منیٰ پہنچ ہی نہیں سکا تو اگلے دن علیٰ الصبح سیدھا عرفات ہی چلا جائے توبھی اس کا حج مکمل ہے۔ امام ابن المنذر نے منیٰ میں یہ رات نہ گزار سکنے پر کوئی فدیہ نہ ہونے پر اجماع ذکر کیا ہے۔ (النیل: ۳/۵/ ۵۶، و الفتح الرباني: ۱۲/ ۱۱۳) امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ سنت تو یہ ہے کہ مذکورہ پانچ نمازیں منیٰ میں پڑھے اوریہ رات بھی وہیں گزارے۔ یہ رات منیٰ میں گزارنا سنت ہے، رکن یا واجب نہیں، لہٰذا اگر کسی سے یہ سنت چھوٹ جائے تو اس پر کوئی دم (فدیہ) بھی نہیں ہے اور اس پر اجماع ہے۔ (شرح مسلم للنووي: ۴/ ۱۷۴) منیٰ میں نمازِ ظہر و عصر اور عشاء قصر کر کے (دوگانہ) پڑھی جائیں۔ اس میں مکی و غیر مکی یا مقامی وآفاقی حجاج میں کوئی فرق نہیں۔ (التحقیق والإیضاح، ص: ۲۷) پاک وہند کے حجاج ایک روایت کاسہارا لے کر تمام نمازیں پوری ہی پڑھتے ہیں حالانکہ یہ خلافِ سنت ہے کیونکہ کبار محقّقین نے ثابت کیا ہے کہ وہ روایت حج کے موقع سے تعلق ہی نہیں رکھتی بلکہ اس کا تعلق تو فتح مکہ کے دن سے ہے۔ حج کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازیں قصر کر کے پڑھیں اورکسی کو مکمل کرنے کاحکم بھی نہیں فرمایا ۔ (زاد المعاد: ۱/ ۴۶۱، ۴۶۲۔ التحقیق والإیضاح، ص: ۳۵) ۸/ ذوالحج کے دن اور اگلی رات تلبیہ، تکبیر اور ذکرِ الٰہی کی کثرت رکھیں۔ ۹/ ذوالحج، یومِ عرفہ یا یومِ حج: ۹/ ذوالحج کو ’’یومِ عرفہ‘‘ اور ’’یومِ حج‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس دن نمازِ فجر منیٰ میں ادا کر کے کچھ دیر ذکرِ الٰہی میں گزاریں اور جب سورج طلوع ہو جائے تو منیٰ سے عرفات کو تلبیہ اور تکبیریں کہتے ہوئے روانہ ہو جائیں، کیونکہ صحیح بخاری ومسلم، سنن نسائی اور مسند احمد میں مذکورہ حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ محمد بن ابی بکر ثقفی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
Flag Counter