Maktaba Wahhabi

319 - 380
رَجَعَ اِلیٰ أَھْلِہٖ )) [1] ’’جو قربانی نہ پائے وہ ایامِ حج میں تین اورجب اپنے اہلِ خانہ کے پاس جائے تو سات روزے رکھے ۔‘‘ اوریہی حکم قرآنِ کریم میں بھی ہے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے: { فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَ سَبْعَۃٍ اِذَا رَجَعْتُمْ تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ ذٰلِکَ لِمَنْ لَّمْ یَکُنْ اَھْلُہٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ} [البقرۃ: ۱۹۶] ’’جسے قربانی میسّر نہ ہو، وہ تین روزے ایامِ حج میں اور سات روزے واپس جاکر رکھے، اس طرح یہ پورے دس روزے ہوجائیں گے۔ یہ رعایت اُن کے لیے ہے جن کے گھر مسجدِ حرام کے قریب نہ ہوں۔‘‘ ایامِ حج میں جو تین روزے رکھنے ہوتے ہیں یہ یوم نحر (۱۰/ ذوالحج) کو چھوڑ کر کسی بھی دن رکھے جاسکتے ہیں حتیٰ کہ ایامِ تشریق (۱۱، ۱۲، ۱۳/ ذوالحج) کو رکھ لینا بھی جائز ہے کیونکہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے مروی ہے: (( لَمْ یُرَخَّصْ فِیْ أَیَّامِ التَّشْرِیْقِ أَنْ یَصُمْنَ اِلاَّ لِمَنْ لَمْ یَجِدِ الْھَدْي )) [2] ’’ایامِ تشریق میں روزہ رکھنے کی کسی کو اجازت نہیں سوائے اس کے جو قربانی نہ پائے۔‘‘ قربان گاہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو منحر (قربان گاہ) میں قربانی کی تھی جیساکہ صحیح مسلم اور سنن
Flag Counter