Maktaba Wahhabi

334 - 380
دو دن یا تین دن رَمی: افضل تویہ ہے کہ ذو الحج کے ایامِ تشریق (۱۱، ۱۲، ۱۳) منیٰ میں گزارے اور تینوں دن ہی تینوں جمرات پر رَمی کرے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں دن ہی رَمی کی تھی جیسا کہ سنن ابو داود، مسند احمد، صحیح ابن حبان اور مستدرک حاکم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث کے الفاظ سے پتہ چلتا ہے۔ چنانچہ وہ فرماتی ہیں: (( ثُمَّ رَجَعَ اِلـٰی مِنَیٰ فَمَکَثَ بِھَا لَیَالِيَ اَیّامِ التَّشْرِیْقِ )) [1] ’’(طوافِ افاضہ کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ لوٹ آئے اور ایامِ تشریق کی راتیں وہیں رہے۔‘‘ اس حدیث میں ’’لیالی‘‘ اور ’’ایام‘‘ دونوں ہی جمع کے صیغے ہیں جو تین یا تین سے زیادہ کے عدد پر بولے جاتے ہیں۔لیکن اگر کسی وجہ سے صرف پہلے دو دن (۱۱، ۱۲ ذوالحج) منیٰ میں گزار کر اور صرف دو ہی دنوں کی رَمی پر کفایت کرتے ہوئے مکہ مکرمہ چلا جائے تو اسے اس کی اجازت ہے کیونکہ قرآنِ کریم میں ارشادِ الٰہی ہے: {فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ} [البقرۃ: ۲۰۳] ’’جو شخص جلدی کرکے دو ہی دنوں (کی رَمی کے) بعد واپس آگیا، اسے کوئی گناہ نہیں۔‘‘ البتہ جو شخص دو دنوں کی رَمی کرکے۱۲/ذوالحج کو لوٹنا چاہے اُسے مغرب سے پہلے پہلے منیٰ سے نکل جانا چاہیے اور اگر وہیں (خیمے اور قیام گاہ وغیرہ) مغرب ہوگئی تو پھر ضروری ہے کہ وہیں رک جائے اور اگلے دن کی رَمی کرکے لوٹے۔ شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ اور جمہور علماء کا یہی مسلک ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے المجموع شرح المہذب (۸/ ۲۸۳) میں مذکورہ آیت کے لفظ {یَوْمَیْنِ} سے استدلال کیاہے کہ ’’یَوْم‘‘ کا اطلاق دن پر ہوتاہے نہ کہ رات پر۔ (لہٰذا رات ہونے سے پہلے پہلے نکلے
Flag Counter