Maktaba Wahhabi

354 - 380
’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس بات کو پسند کرتے تھے کہ اگر بچہ حج کرے تو اس کے سلے ہوئے کپڑے اتار دیے جائیں اور اسے خوشبو وغیرہ سے بچایا جائے۔‘‘ اگربچوں کو احرام کے کپڑے نہ بھی پہنائے جائیں بلکہ ان کے معمول کے کپڑوں میں انھیں احرام کے حکم میں داخل کردیا جائے تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے دو اقوال میں سے ایک قول کے مطابق اس کی بھی گنجائش ہے کیونکہ ان کے نزدیک بچے کا احرام لازمی نہیں نفلی ہے۔ لہٰذا افضل تو یہی ہے کہ سلے ہوئے کپڑے اتار دیے جائیں لیکن یہ واجب نہیں۔ بچوں کا عمرہ: جب احرام پہن کر بچے تیار ہوجائیں تو ان میں سے سمجھدار بچے اور بچیاں تو ’’لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ عُمْرَۃً ‘‘کہیں اور پھر ساتھ ہی تلبیہ پکارنا شروع کردیں اور جب تک احرام میں رہیں ’’محرماتِ احرام‘‘ میں سے کسی فعل کا ارتکاب نہ کریں۔ نا سمجھ بچوں کی طرف سے احرام کی نیت کرکے انھیں مُحرم بنانے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ اس میں کچھ اختلاف ہے۔ مختصر یہ کہ ماں باپ یا کوئی بھی سرپرست یہ ذمہ داری پوری کرسکتاہے۔ (المرعاۃ: ۶/ ۲۰۵) لہٰذا سبل السلام شرح بلوغ المرام، المبسوط،درمختار اور فتاویٰ عالمگیری میں مذکور ہدایت کے مطابق بچے کا ولی یاسرپرست بچے کی طرف سے دل میں یہ نیت کرے کہ میں نے اپنے اس بچے کو ’’مُحرِم‘‘ بنایا تو اس کے ساتھ ہی وہ بچہ احرام کے حکم میں داخل ہوجائے گا۔ (سبل السلام: ۱/ ۲/ ۱۸۱، المرعاۃ: ۶/ ۲۰۱) جبکہ مفتیٔ عالمِ اسلام علامہ ابن باز رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ چھوٹے بچے اور بچی کی طرف سے ان کے سرپرست کا احرام باندھنا (یعنی انھیں احرام کے حکم میں داخل کرنا) بھی واجب نہیں بلکہ نفل ہے۔ ایسا کرلے تو اسے ثواب ہوگا اور اگر ایسا نہ
Flag Counter