Maktaba Wahhabi

386 - 380
’’فَھٰذِہِ الطُّرُقُ وَاِنْ کَانَتْ مُفْرَدَاتُھَا لا تَخْلُو مِنْ علَّۃٍ فَمَجْمُوعُھَا یَدُلُّ عَلَیٰ أَنَّ لَہٗ اَصْلاً۔۔۔‘‘ (الصحیحۃ: ۴/ ۶۲۸، ۶۳۱) ’’مذکورہ طُرق میں سے اگرچہ انفرادی طور پر ہر طریق میں ہی (ضُعف کی) کوئی نہ کوئی علّت وسبب موجود ہے مگر یہ مجموعی طور پر اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس حدیث کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے۔‘‘ یہ تشویش کیوں؟ بعض لوگ جب چالیس نمازیں باجماعت ادا کرنے کے دوران کسی وجہ سے کبھی کسی نماز کی جماعت سے رہ جائیں تو یہ بات ان کے لیے سوہانِ روح بن جاتی ہے اور اس پریشانی وتشویش کو دور کرنے کے لیے اب اگر وہ نئے سرے سے چالیس نمازیں پوری کرنا چاہیں تو وقت نہیں ہوتا، لہٰذا ان کی ذہنی کوفت باقی ہی رہتی ہے۔ حالانکہ سابقہ تفصیل کے پیشِ نظر اس تشویش کی ضرورت نہیں بلکہ جتنی نمازیں پڑھ سکیں انھیں غنیمت سمجھیں اور اللہ کا شکر ادا کریں مگر اتنی پریشانی میں مبتلا نہ ہوں کیونکہ چالیس کایہ عدد صحیح احادیث سے وہاں کے لیے ثابت ہی نہیں، نہ یہ حج کارکن یا حصہ ہے اور نہ ہی ائمہ اربعہ اور فقہاء و محدّثینِ کرام رحمہ اللہ میں سے کسی نے وہاں چالیس نمازیں پوری کرنے کو فرض یا واجب کہاہے۔ دورانِ حج تجارت ومزدوری: عوامی حلقوں میں یہ تاثر عام پایاجاتاہے کہ جو شخص دورانِ حج تجارت یاکوئی مزدوری کرے اس کاحج ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے بارے میں عجیب وغریب باتیں بنائیں جاتی ہیں حتیٰ کہ اس کی نیت پر شک کیا جاتاہے کہ یہ گیا ہی کمائی کرنے کے لیے تھا۔ لہٰذا مناسب معلوم ہوتاہے کہ اس سلسلہ میں بھی شریعتِ اسلامیہ کا حکم واضح کر دیا جائے کہ یہ جائز ہے یا ممنوع؟
Flag Counter