Maktaba Wahhabi

66 - 380
اوروہ عورت جو اس بھری دنیا میں اکیلی ہی رہ گئی ہو اور اس کا شوہر یا کوئی بھی محرم نہ ہو تو یہ صورت اگرچہ نادر ہی ہے مگر کہیں کہیں ا س کا پتہ چلتا ہے یا کم از کم ممکن ہے تو ایسی عورت سے فریضۂ حج ساقط ہوجاتا ہے کیونکہ اس پر شرائطِ استطاعت پوری نہیں ہوتیں۔ البتہ بعض اہلِ علم نے ایسی مجبوری کی حالت میں اسے دوسری ثقہ عورتوں کی رفاقت میں فرض حج کی ادائیگی کی اجازت دی ہے مگر وہ اس شکل میں نفلی حج یا عمرہ کے لیے نہیں جاسکتی۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں: بلوغ الأماني: ۵/ ۸۵) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بوڑھی عورت اکیلی بلا محرم سفرِ حج (فرض) اختیار کرسکتی ہے۔ (مجموع الفتاویٰ: ۲۹/۱۲۰) جبکہ بعض کبار علماء و محدّثین نے دوسری ثقہ عورتوں کی رفاقت میں حج پر جانے کو بھی ناپسند کیا ہے اورا س کے کئی مفاسد بیان کیے ہیں۔ خصوصاً اس صورت میںجب ایسی لا محرم یا دوسری کوئی بھی عورت کسی غیر محرم مرد کے ساتھ عارضی طورپر نکاح کر کے اور پھر اسی عارضی نکاح میں سفرِ حج پر روانہ ہوجاتی ہے تو اس میں کئی قباحتیں پائی جاتی ہیں ، مثلا ًیہ کہ عارضی نکاح، نکاح نہیں بلکہ ’’متعہ‘‘ ہے جو کہ اسلام میں حرام ہے۔ پھر ایسے عارضی محرم اور حقیقی نامحرم شخص کے ساتھ اس عورت کا اختلاط اوراٹھنا بیٹھنا بے حجابی وبے پردگی کاموجب ہوگا جو کہ ایک قطعی ممنوع فعل ہے۔ (ملاحظہ فرمائیں: مناسک الحج والعمرۃ للألباني، ص: ۴۸، ۴۹، طبع جمعیۃ إحیاء التراث الإسلامي کویت) ایک اہم سوال: موجودہ ہوائی سفر کی سہولتوں کے پیشِ نظر ایسی صورت بھی سامنے آسکتی ہے کہ ایک شخص اپنی والدہ یا بیوی یا کسی بھی محرم عورت کو کراچی یاممبئی وغیرہ سے ہوائی جہاز پر سوار کرادیتا ہے اورجدہ میں اس خاتون کاشوہر ، بیٹا ، بھائی ، یا کوئی دوسرا محرم رشتہ دار
Flag Counter