Maktaba Wahhabi

146 - 200
پھر آگے چل کر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام ابن تین سے عورت کے ذبیحہ کا جواز ، امام مالک سے کراہت اور شافعیہ کے نزدیک عورت کے ترکِ ذبح کا اولی ہونا نقل کیا ہے۔ (فتح الباري: ۱۰/ ۱۹، و انظر الفتح الرباني: ۱۳/ ۶۷) ان فقہی آراء سے قطع نظر صرف صحابی رسول حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ ہی سے عورت کے ذبیحہ کے جائز ہونے کا پتہ نہیں چلتا بلکہ اس سلسلے میں تو ایک صریح حدیث بھی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عورت کے ذبیحہ کو جائز قرار دیا ہے۔ چنانچہ سنن ابن ماجہ میں ’’باب ذبیح المرأۃ‘‘ کے تحت وارد شدہ حدیث میں مذکور ہے کہ ’’ایک عورت نے پتھر کے ساتھ ایک بکری کو ذبح کیا۔‘‘ یہ واقعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ذکر کیا گیا: (( فَلَمْ یَرَ بِہٖ بَأْسًا )) [1] ’’آپ نے اس میں کوئی حرج نہیں سمجھا۔‘‘ 4۔ مزدوری میں قربانی کا گوشت نہ دینا: مذکورہ احادیث کی بنا پر مرد و زن کے لیے مستحب تو یہی ہے کہ وہ اپنے قربانی کے جانور خود ذبح کریں اور اگر کوئی شخص کسی دوسرے کے ہاتھوں ذبح کروا لیتا ہے تو یہ بھی بلا اختلاف جائز ہے لیکن قربانی کا جانور ذبح ہوتے وقت وہ خود بھی موجود رہے اور ذبح کرانے یا اس کا گوشت بنانے والے کو اپنی جیب سے مزدوری دے۔ اس سلسلے میں عموماً لوگ غفلت و سستی برتتے ہیں اور جیب
Flag Counter