Maktaba Wahhabi

177 - 200
صورتوں میں مذبوح جانور کے پیٹ سے نکلنے والا بچہ حلال ہے۔ ماوردی کے بقول اس کے حلال ہونے پر صحابہ کا اجماع ہے جیساکہ حیاۃ الحیوان (۱/ ۱۶) اور اعلام الموقعین (۲/ ۳۷۱) میں مذکور ہے۔ احناف کے نزدیک بھی حاملہ (گابھن) جانور کی قربانی جائز ہے تاہم مکروہ ہے۔ ان کے نزدیک بچہ زندہ نکلے تو حلا ل ہے اور اگر مردہ نکلے تو پھر حلال نہیں ہے جیسا کہ دار العلوم دیوبند کے عزیز الفتاوی (۱/ ۱۹۸) میں مذکور ہے۔ (ماخوذ از ہفت روزہ الاعتصام، عید الاضحی نمبر ۱۹۸۶ء) مجدد ملت شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی حاملہ جانور کی قربانی کو جائز قرار دیا ہے اور اس کے پیٹ سے نکلنے والے بچے کے بارے میں فقہی مذاہب کی تفصیل بھی ذکر کی ہے۔ (مجموعۃ الفتاوی: ۲۶/ ۳۰۷) جانور خریدنے کے بعد رونما ہونے والے عیب: کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ خریدتے وقت تو جانور ہر قسم کے عیب سے پاک تھا لیکن قربانی کا وقت آنے سے پہلے ہی اس کا سینگ ٹوٹ گیا یا کوئی اور عیب پیدا ہو گیا۔ ایسے جانور کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اس سلسلے میں سنن ابن ماجہ، مسند احمد اور سنن بیہقی میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے قربانی کے لیے ایک دنبہ خریدا، جس پر بعد میں ایک بھیڑیے نے حملہ کیا اور اس کی چکتی (چکی) کاٹ ڈالی۔ اس دنبے کے بارے میں انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( ضَحِّ بِہٖ )) [1] ’’ اس کی قربانی کرلو۔‘‘
Flag Counter