Maktaba Wahhabi

183 - 200
البتہ احناف کے نزدیک چھ ماہ کا بھی جائز ہے بشرطیکہ وہ خوب موٹا تازہ ہو۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ (یہ معاملہ تو دنبے اور چھترے کا ہے ورنہ) اس بات پر پوری امت اسلامیہ کا اجماع ہے کہ بکری کا جذعہ قربانی دینا جائز نہیں بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دو دانتا ہو۔ (شرح الفتح الرباني: ۱۳/ ۷۵) بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مثلاً حضرت عقبہ بن عامر اور زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کو بعض مخصوص حالات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بکری کا جذعہ قربانی دینے کی اجازت بخشی تھی، تو وہ حافظ ابن حجر عسقلانی اور علامہ احمد عبدالرحمن البنا کی تصریح کے مطابق شروع اسلام کا واقعہ ہے۔ علاوہ ازیں ان واقعات میں صحیح بخاری، مسند احمد اور سنن بیہقی میں صحیح سند کے ساتھ یہ بھی ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا تھا: (( ضَحِّ بِہٖ اَنْتَ، وَ لاَ رُخْصَۃَ لِاَحَدٍ فِیْہَا بَعْدَکَ )) [1] ’’تم ذبح کر لو، لیکن تمھارے بعد اس کی کسی دوسرے کو اجازت نہیں ہے۔‘‘ ان الفاظِ حدیث کے پیش نظر مذکورہ واقعات عموم کی دلیل نہیں بن سکتے۔ کسی فوت شدہ کی طرف سے قربانی؟ مسائلِ قربانی کے ضمن میں ایک بات یہ بھی آتی ہے کہ اگر کسی کے والدین فوت ہوچکے ہوں یا وہ کسی دوسرے فوت شدہ عزیز کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو اس کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟ اس مسئلے میں اہل علم کی دو رائے ہیں۔ ایک فریق کا کہنا ہے کہ فوت شدگان کی طرف سے قربانی کی جا سکتی ہے ۔ ان کا استدلال ایک تو ان احادیث سے ہے جو صحیح مسلم، سنن ابو داود، ترمذی، دار قطنی و بیہقی اور مسند احمد میں مذکور ہیں
Flag Counter