Maktaba Wahhabi

63 - 200
اس سے معلوم ہوا کہ نماز عید کی دو رکعتوں سے پہلے یا ان کے بعد کوئی نماز نہیں جس کا نما ز عید سے کوئی تعلق ہو۔ مطلق نوافل: حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ نماز عید سے پہلے یا بعد میں کوئی سنتیں ثابت نہیں ہیں؛ رہی مطلق نفلی نماز، تو اس کے بارے میں کوئی خاص دلیل نہیں کہ اس سے منع کیا گیا ہو، ہاں اگر وہ وقتِ کراہت ہو تو ممنوع ہے خواہ یوم عید ہو یا عام دن ہو ں۔ واللہ اعلم[1] عید کی نماز سے واپس گھر آکر نفل پڑھنا: یہ تو حکم ہے عید گاہ میں عید کی نماز سے پہلے یا بعد میں سنتیں پڑھنے کا؛ لیکن عید کی نماز سے فارغ ہوکر گھر چلے آنے پر اگر کوئی اپنے گھر میں نفلی نماز پڑھ لے تو نہ صرف اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہ ثابت ہے۔ چنانچہ سنن ابن ماجہ اور صحیح ابن خزیمہ میں حسن سند کے ساتھ ایک حدیث ہے، جسے امام حاکم نے صحیح قرار دیا ہے جو مسند احمد اور سنن بیہقی میں بھی مروی ہے۔ اس میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: (( إِنَّ النَّبِيَّ صلي اللّٰہ عليه وسلم کَانَ لاَ یُصَلِّيْ قَبْلَ الْعِیْدِ شَیْئًا فَاِذَا رَجَعَ اِلٰی مَنْزِلِہٖ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ )) [2] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز عید سے پہلے کچھ نہیں پڑھا کرتے تھے اور جب عید گاہ سے لوٹ کر گھر آجاتے تو دو رکعتیں پڑھتے تھے۔‘‘
Flag Counter