Maktaba Wahhabi

67 - 200
ابو موسی رضی اللہ عنہ سے بیان کرنے والے راوی ابو عائشہ کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے کہ وہ غیر معروف ہے اور ہم اس کا اصل نام تک نہیں جانتے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اسے امام مکحول رحمہ اللہ کی روایت سے بھی نقل کیا ہے جس میں حضرت ابو موسی اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہما کے قاصد کا واسطہ بھی ہے، پھر امام بیہقی نے اس قاصد کو مجہول قرار دیا ہے۔ امام شوکانی آخر میں لکھتے ہیں کہ اس قول (چھ تکبیروں) والوں نے کسی بھی ایسی روایت سے استدلال نہیں کیا جو قابلِ حجت ہو۔[1] تحفۃ الاحوذی میں علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو ضعیف کہا ہے اور اس کے اسباب و علل بھی نقل کیے ہیں۔ انھوں نے مصنف عبدالرزا ق والے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اثر، جسے آثار السنن میں شوق نیموی نے صحیح کہا ہے، کو بادلائل ضعیف ثابت کیا ہے جس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں، اور یہ بھی لکھا ہے کہ میرے علم کے مطابق اس سلسلے میں کوئی ایک بھی مرفوع حدیث صحیح نہیں۔ رہے آثار صحابہ، تو وہ بھی مختلف ہیں۔[2] جمہور کا مسلک: تکبیراتِ زوائد کے سلسلے میں امام شوکانی نے لکھا ہے کہ ایک قول یہ ہے کہ پہلی رکعت میں قراء ت سے پہلے سات تکبیریں کہیں اور دوسری میں قراء ت سے پہلے پانچ تکبیریں۔ پھر انھوں نے علامہ عراقی سے نقل کیا ہے کہ یہ (بارہ تکبیروں والا) قول ہی صحابہ و تابعین اور ائمہ میں سے اکثر کا قول ہے۔ حضرت عمر، علی، ابوہریرہ، ابو سعید، جابر، ابن عباس، ابن عمر، زید بن ثابت اور ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے اس کی روایات ملتی ہیں۔ مدینہ طیبہ کے فقہاء سبعہ،
Flag Counter