Maktaba Wahhabi

122 - 442
مصیبت کی حالت میں لوگوں کا مختلف مراتب سوال ۶۳: اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو کسی مصیبت کے نازل ہونے کی وجہ سے ناراضگی کا اظہار کرے؟ جواب :مصیبت کی حالت میں لوگ چار مراتب پر ہوتے ہیں: پہلا مرتبہ: ناراضگی کا ہے اور اس کی حسب ذیل اقسام ہیں: ٭ انسان دل سے ناراضی کا اظہار کرے، یعنی اپنے رب تعالیٰ سے ناراض ہوجائے اور اللہ تعالیٰ نے اس کے مقدر میں جو لکھ رکھا ہے، اس کی وجہ سے وہ اپنے رب تعالیٰ پر غصے کا اظہار کرے ، تو یہ حرام ہے اور بسا اوقات یہ ناراضگی کفر تک بھی پہنچا دیتی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرْفٍ فَاِنْ اَصَابَہٗ خَیْرُنِ اطْمَاَنَّ بِہٖ وَ اِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُ نِ انْقَلَبَ عَلٰی وَجْہِہٖ خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃَ﴾ (الحج: ۱۱) ’’اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہے کہ وہ کنارے (شک) پر اللہ کی عبادت کرتا ہے۔ اگر اس کو کوئی (دنیاوی) فائدہ پہنچے تو اس کے سبب مطمئن ہو جاتا ہے اور اگر کوئی آفت آپڑے تو منہ کے بل لوٹ جاتا ہے (کفرکا ارتکاب کربیٹھتا ہے) اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی، یہی تو نقصان صریح ہے۔‘‘ ٭ ناراضگی کا اظہار زبان سے ہو اور بلاوجہ زبان سے تباہی و بربادی کو پکارنے لگے یہ اور اس طرح کی چیزیں اختیار کرے، تو یہ بھی حرام اور شرعا ممنوع ہیں۔ ٭ ناراضی کا اظہار اعضا سے کرے، مثلاً: یہ کہ رخساروں پر طمانچے مارے، گریبان پھاڑے اور بال نوچے۔ یہ تمام کام بھی حرام اور واجب صبر کے منافی ہیں۔ دوسرا مرتبہ: صبر ہے جیسا کہ شاعر نے کہا: الصَّبْرُ مِثْلُ اسْمِہِ مُرٌّ مَذَاقَتُہُ لٰکِنْ عَوَاقِبُہُ اَحْلٰی مِنَ الْعَسَلِ ’’اگرچہ صبر کا ذائقہ اپنے نام کی طرح کڑوا ہے لیکن اس کے نتائج شہد سے بھی زیادہ شریں ہیں۔‘‘ مرادیہ ہے کہ انسان دیکھتا ہے کہ یہ چیز اس کے لیے بہت ثقیل ہیں مگر وہ اسے برداشت کر لیتا ہے۔ گو وہ اس کے وقوع پذیر ہونے کو پسند نہیں کرتا، لیکن اس کا ایمان ناراض ہونے سے اسے بچا لیتا ہے۔ مصیبت کا وقوع اور عدم اس کے نزدیک برابر نہیں ہیں۔ صبر کرنا واجب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صبر کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے: ﴿وَ اصْبِرُوْا اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ، ﴾ (الانفال: ۴۶) ’’اور صبر سے کام لو کہ اللہ صبر کرنے والوں کا مددگار ہے۔‘‘ تیسرا مرتبہ: رضا کا ہے کہ انسان مصیبت پر راضی برضا ہو جائے حتیٰ کہ اس کے نزدیک مصیبت کا وجود اور عدم برابر محسوس ہونے لگے۔ مصیبت کا وجود اس پر گراں گزرے نہ وہ اس کے لیے بھاری بوجھ بنے بلکہ اس کا ایمان ناراضگی میں مبتلاہونے سے اس کے لئے آڑ بن جائے۔ یہ بات مستحب ہے اور راجح قول کے مطابق یہ واجب نہیں ہے۔ اس مرتبے اور اس سے پہلے مرتبے میں فرق ظاہر ہے کیونکہ اس کے نزدیک مصیبت کا وجود اور عدم رضا کے اعتبار سے برابر نہیں ہیں لیکن ایسا کرنا اس کے لئے واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اس موقعہ سے صبرکرنے کاحکم دیا ہے(واصبرواان اللّٰه مع الصابرین) [۱سوال اور صبر کرو اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
Flag Counter