Maktaba Wahhabi

149 - 442
ا: ریا کو دور کر دے، اس کی طرف مائل نہ ہو بلکہ اسے ناپسند کرتے ہوئے اس سے اعراض کر لے تو اس کا کوئی اثر نہ ہوگا، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((اِنَّ اللّٰہَ تَجَاوَزَ عَنْ اُمَّتِی مَا حَدَّثَتْ بِہِ أَنْفُسُہَا مَا لَمْ تَعْمَلِْ أَوْ تَتَکَلَّمْ)) (صحیح البخاری، الطلاق، باب الطلاق فی الاغلاق والمکرہ والسکران… ح:۵۲۶۹ وصحیح مسلم، الایمان، باب تجاوز اللّٰه عن حدیث النفس… ح:۱۲۷۔) ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دل میں آنے والی باتوں کو نظر انداز فرمایا ہے، جب تک اس کے مطابق عمل نہ کر لے یا اس کے مطابق بات نہ کر لے۔‘‘ ب: ریا کاری سے مطمئن ہو اور اسے دور کرنے کی کوشش نہ کرے، تو اس سے ساری عبادت باطل ہو جاتی ہے کیونکہ اس کا ابتدائی حصہ آخری حصے کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی اخلاص کے ساتھ نماز شروع کرے اور پھر دوسری رکعت میں ریا میں مبتلا ہو جائے تو ابتدائی حصے کے آخری حصے کے ساتھ ملے ہونے کی وجہ سے نماز باطل ہو جائے گی۔ ۳۔ عبادت کے ختم ہونے کے بعد ریا طاری ہو تو وہ ریا عبادت پر اثر انداز نہ ہوگی اور نہ ایسے ریا سے عبادت باطل ہوگی کیونکہ یہ عبادت صحیح حالت میں مکمل ہوئی ہے، لہٰذا مکمل ہونے کے بعد ریا کے پیدا ہونے سے یہ فاسد نہ ہوگی۔ ریا یہ نہیں ہے کہ انسان اس بات سے خوش ہو کہ لوگوں کو اس کی عبادت کے بارے میں معلوم ہے کیونکہ اس صورت میں یہ بات عبادت سے فراغت کے بعد طاری ہوئی ہے اور یہ بھی ریا نہیں ہے کہ انسان اپنے فعل طاعت سے خوش ہو کیونکہ یہ تو اس کے ایمان کی دلیل ہے، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ سَرَّتْہُ حَسَنَتُہُ وَسَائَتْہُ سَیِّئَتُہُ فَذٰلِکُْ مُؤْمِنُ)) (جامع الترمذی، الفتن، باب ماجاء فی لزوم الجماعۃ، ح:۲۱۶۵۔) ’’جس شخص کو اپنی نیکی اچھی لگے اور برائی بری معلوم ہو تو وہ مومن ہے۔‘‘ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((تِلْکَ عَاجِلُ بُشْرَی الْمُؤْمِنِ)) (صحیح مسلم، البروالصلۃ، باب اذا اثنی علی الصالح، ح:۲۶۴۲۔) ’’یہ مومن کو جلد نصیب ہو جانے والی پیشگی بشارت ہے۔‘‘ قرآن مجید کی قسم اٹھانا کیسا ہے ؟ سوال ۷۶: قرآن مجید کاواسطہ دے کر حلف اٹھانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :اس سوال کا جواب قدرے تفصیل کے ساتھ دیا جائے گا۔ کسی چیز کی قسم کھانا اس بات کی دلیل ہے کہ قسم کھانے والے کے نزدیک اس چیز کی خاص عظمت ہے جس کی قسم کھائی جا رہی ہے، لہٰذا کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے کسی اسم یا صفات میں سے کسی صفت کے بغیر قسم کھائے، مثلاً: قسم کھانی یوں کھانی چاہیے کہ ’’اللہ کی قسم! ایسا میں ضرور کروں گا، رب کعبہ کی قسم! میں یہ
Flag Counter