Maktaba Wahhabi

156 - 442
اور فرمایا: ﴿وَ لَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْکُمْ فِی السَّبْتِ فَقُلْنَا لَہُمْ کُوْنُوْا قِرَدَۃً خٰسِئِیْنَ، فَجَعَلْنٰہَا نَکَالاً لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہَا وَمَا خَلْفَہَا وَ مَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِیْنَ، ﴾(البقرۃ: ۶۵۔۶۶) ’’اور تم ان لوگوں کو خوب جانتے ہو جو تم میں سے ہفتے کے دن (مچھلی کا شکار کرنے) میں حد سے تجاوز کر گئے تھے تو ہم نے ان سے کہا کہ ذلیل وخوار بندر ہو جاؤ، پھر ہم نے اس قصے کو اس وقت کے لوگوں کے لیے اور ان کے بعد آنے والوں کے لیے عبرت اور پرہیزگاروں کے لیے نصیحت بنا دیا۔‘‘ دیکھئے اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اس دن ان مچھلیوں تک رسائی کو کیسے آسان بنا دیا تھا جس دن ان کے لیے شکار کو ممنوع قرار دے دیا گیا تھا؟ لیکن۔ العیاذ باللہ۔ ان لوگوں نے صبر نہ کیا اور اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ کام کو حلال قرار دینے کے لیے حیلہ وبہانہ تراش لیا۔ پھر اس واقعہ کا حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس واقعہ سے تقابل کیجئے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کی اس طرح آزمائش کی کہ حالت احرام میں ان کے لیے شکار کرنے کو حرام قرار دے دیا، حالانکہ شکار ان کی زد میں تھا، لیکن انہوں نے شکار کرنے کی جرأت نہ کی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرما دیا تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَیَبْلُوَنَّکُمُ اللّٰہُ بِشَیْئٍ مِّنَ الصَّیْدِ تَنَالُہٗٓ اَیْدِیْکُمْ وَ رِمَاحُکُمْ لِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّخَافُہٗ بِالْغَیْبِ فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ، ﴾ (المائدۃ: ۹۴) ’’مومنو! اللہ اس چیز کے شکار سے، جن کو تم ہاتھوں اور نیزوں سے پکڑ سکو، ضرور تمہاری آزمائش کرے گا (یعنی حالت احرام میں شکار کی ممانعت سے) تاکہ معلوم کرے کہ اس سے غائبانہ کون ڈرتا ہے، تو جو اس کے بعد حد سے گزرے، اس کے لیے دکھ دینے والا عذاب (تیار) ہے۔‘‘ شکار حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاتھوں کی پہنچ میں تھا، وہ اسے بآسانی شکار کر سکتے تھے لیکن وہ اللہ سے ڈر گئے اور انہوں نے قطعاً کسی قسم کا کوئی شکار نہ کیا۔ اسی طرح ہر انسان کے لیے یہ واجب ہے کہ جب اس کے لیے کسی حرام فعل کے اسباب میسر ہوں تو وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور اس حرام فعل کا ارتکاب نہ کرے اور اس بات کو خوب جان لے کہ حرام فعل کے لیے اسباب ووسائل کا میسرآنا درحقیقت آزمائش اور امتحان ہے، لہٰذا حرام فعل کے ارتکاب سے باز رہے اور صبر کرے کیونکہ اچھا انجام پرہیزگاروں ہی کو نصیب ہوگا اور وہ سرخروئی سے ہم کنارہوں گے۔ قبر پر مسجد اور عمارت یا مسجد میں قبر بنانا حرام ہے سوال ۷۹: قبروں کے ان پجاریوں کو ہم کیا جواب دیں جو مسجد نبوی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دفن ہونے کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں؟ جواب :اس کے کئی جواب دیے جا سکتے ہیں: ٭ مسجد نبوی قبر پر نہیں بنائی گئی تھی بلکہ یہ مسجد تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں تعمیر کی گئی تھی۔ ٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں دفن نہیں کیا گیا تھا بلکہ آپ کو آپ کے گھر میں دفن کیا گیا تھا، لہٰذا اسے نیک لوگوں کو مسجد میں دفن کیے جانے
Flag Counter