Maktaba Wahhabi

184 - 442
’’اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی مثال یہ ہے… اور یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کے راستے میں جہاد کرنے والا کون ہے؟‘‘ اور فرمایا: ((وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَا یُکْلَمُ أَحَدٌ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ بِمَنْ یُکْلَمُ فِی سَبِیْلِہِ إِلَّا جَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وکلمہ یثعب دما َاللَّوْنُ لَوْنُ الدَّمِ وَالرِّیحُ رِیحُ الْمِسْکِ)) (صحیح البخاری، الجہاد والسیر، باب من یجرح فی سبیل اللّٰه عزوجل، ح:۲۸۰۳۔) ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جسے اللہ تعالیٰ کے رستے میں زخم لگے… اور یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کے رستے میں کسے زخم لگتا ہے… وہ روز قیامت اس طرح آئے گا کہ اس کے زخم سے خون رس رہاہوگا اس کا رنگ خون کا رنگ ہو گا اور خوشبو کستوری کی خوشبو ہوگی۔‘‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ان دونوں حدیثوں کو امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت فرمایا ہے۔ جو شخص بظاہر نیک ہو، اس کے لیے ہم یہ امید کر سکتے ہیں، مگر اس کے بارے میں یہ گواہی دے سکتے ہیں نہ اس کے بارے میں کوئی بدگمانی کر سکتے ہیں۔ امید ان دونوں مرتبوں کے درمیان کا ایک مرتبہ ہے۔ ہاں! ایسے شخص کے بارے میں دنیا میں معاملہ احکام شہداء کے مطابق کیا جائے گا، یعنی اگر وہ اللہ تعالیٰ کے رستے میں جہاد کرتے ہوئے قتل ہواہو تو اسے اس کے خون آلود کپڑوں میں دفن کیا جائے گا اور اس کی نماز جنازہ بھی نہیں پڑھی جائے گی اور اگر اس کا تعلق دوسرے شہداء سے ہو تو پھر اسے غسل اور کفن دیا جائے گا اور اس کی نماز جنازہ بھی پڑھی جائے گی۔اگر کسی معین شخص کے بارے میں ہم یہ شہادت دیں کہ وہ شہید ہے تو اس شہادت سے یہ لازم آتا ہے کہ ہم ا س کے جنتی ہونے کی شہادت دے رہے ہیں اور یہ بات اہل سنت کے مذہب کے خلاف ہے کہ ہم کسی کے قطعی جنتی ہونے کی شہادت دیں شرعا ہمارے لئے اس کا جواز نہیں سوائے اس کے جس کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصف بیان کر کے یا شخصی طور پر اس کا تعین فرما کر شہادت دی ہو۔ کچھ لوگوں نے ایسے شخص کے بارے میں شہادت دینے کو بھی جائز قرار دیا ہے جس کی تعریف پر امت کا اتفاق ہو۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے۔اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ نص یا اتفاق امت کے بغیر کسی معین شخص کے شہید ہونے کی شہادت دینا جائز نہیں، البتہ جو شخص بظاہر نیک ہو تو اس کے لیے ایسی امید کی جا سکتی ہے جیساکہ قبل ازیں بیان کیا گیا ہے دراصل اس کی منقبت کے لیے یہی کافی ہے اوراس کی شہادت کا علم تو اس کے خالق ومالک سبحانہ و تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔ کیا ’’اتفاق سے ایسے ہوا‘‘کہنا جائز ہے ؟ سوال ۱۱۳: ’’اتفاق سے‘‘ یہ ہوگیا یہ اور اس جیسی تعبیر استعمال کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :ہماری رائے میں اس لفظ کے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ میرے خیال میں کئی احادیث میں بھی اس طرح کی
Flag Counter