Maktaba Wahhabi

185 - 442
تعبیر موجود ہے کہ ’’ہم اتفاق سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔‘‘ اور ’’اتفاق سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لے آئے‘‘ لیکن اس سلسلہ میں مجھے فی الحال کوئی معین حدیث یاد نہیں آرہی ہے۔[1] انسان کے حوالہ سے کسی چیز کا اتفاق سے پیش آجانا امر واقع ہے کیونکہ انسان غیب نہیں جانتا۔ اسے غیر شعوری اور غیر متوقع طور پر اتفاق سے کوئی چیز پیش آسکتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے حوالے سے ایسا نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کو تو ہر چیز معلوم ہے، اس کے ہاں ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر ہے۔ اس کے ہاں کبھی کوئی چیز اتفاق سے پیش نہیں آتی، لیکن مجھے اور آپ کو کوئی چیز کسی وعدہ، کسی شعور اور کسی پیشگی اطلاع کے بغیر پیش آسکتی ہے، ایسے موقع پر کہتے ہیں کہ یہ چیز اتفاق سے پیش آگئی ہے، لہٰذا ایسا کہنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی کے لیے اس طرح کے الفاظ کا استعمال ممنوع اور ناجائز ہے۔ ’’اسلامی فکر‘‘ یا ’’اسلامی مفکر‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنا کیسا ہے ؟ سوال ۱۱۴: ’’اسلامی فکر‘‘ یا ’’اسلامی مفکر‘‘ کی اصطلاح کے استعمال کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ جزاکم اللّٰہ خیرا جواب :’’اسلامی فکر‘‘ کے الفاظ کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ ان الفاظ کے معنی یہ ہیں کہ اسلام کو ہم نے گویا ایسے انکار سے عبارت قرار دیدیا جنہیں قبول بھی کیا جا سکتا ہے اور رد بھی۔ یہ ایک بہت خطرناک بات ہے جسے دشمنانِ اسلام نے غیر شعوری طور پر ہمارے معاشرے اور سوسائٹی میں داخل کر دیا ہے، البتہ ’’اسلامی مفکر‘‘ کے الفاظ میں مجھے کوئی حرج نہیں نظر آتا کیونکہ یہ تو ایک مسلمان شخص کی صفت ہے اور ایک مسلمان شخص مفکر ہو سکتا ہے۔ دین کو چھلکے او رمغز میں تقسیم کرنا باطل تقسیم ہے سوال ۱۱۵: ہم نے دین کو چھلکے اور مغز میں تقسیم کر رکھا ہے جیسا کہ ڈاڑھی کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے لوگ اس قسم کی تقسیم کا حوالہ دیا کرتے ہیں تو کیا یہ بات صحیح ہے؟
Flag Counter