Maktaba Wahhabi

187 - 442
کیا ایسا کہنا کہ ’’وہ اپنی آخری جگہ فن دفن ہو گیا ‘‘جائز ہے ؟ سوال ۱۱۶: یہ الفاظ کہنے کے بارے میں کیا حکم ہے کہ ’’وہ اپنی آخری آرام گاہ میں دفن ہوگیا ہے؟‘‘ جواب :یہ کہنا کہ وہ اپنی آخری آرام گاہ میں دفن ہوگیا ہے، حرام اور ناجائز ہے کیونکہ آخری آرام گاہ کے الفاظ استعمال کرنے کے معنی یہ ہیں گویا قبر ہی آخری آرام گاہ ہے، اس طرح کی تعبیر بیان میں بعثت کا انکار لازم آتا ہے جب کہ یہ بات عام مسلمانوں کو بھی معلوم ہے کہ قبر آرام کی جگہ نہیں ، البتہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ قبر ہی کو آخری ٹھکانا سمجھتے ہیں، جب کہ مسلمان قبر کو آخری ٹھکانا نہیں سمجھتا۔ جب ایک بدو نے ایک آدمی کو ان آیات کی تلاوت کرتے ہوئے سنا: ﴿اَلْہٰکُمُ التَّکَاثُرُ، حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ، ﴾ (التکاثر: ۱۔۲) ’’(لوگو!) تم کو زیادہ (مال) کی طلب نے غافل کر دیا، یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔‘‘ تو وہ بے ساختہ کہنے لگا کہ اللہ کی قسم! جو دیکھنے والا ہو وہ مقیم نہیں ہوتا کیونکہ جو دیکھنے اور زیارت کرنے والا ہوتا ہے وہ تو چلا جاتا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ ایک دن قبروں سے اٹھایا جائے گا اور یہی بات صحیح ہے۔ لہٰذا اس قسم لغوی تعبیرات سے اجتناب کرنا چاہیے اور قبر کو آخری آرام گاہ قرار نہیں دینا چاہیے کیونکہ آخری ٹھکانا یاآخری آرام گاہ تو روز قیامت جنت ہے یا جہنم۔ نصرانی اور مسیحی میں فرق سوال ۱۱۷: کیا نصرانیت کو مسیحیت اور نصرانی کو مسیحی قرار دینا صحیح ہے؟ جواب :اس بات میں کچھ شک نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد نصاریٰ کا مسیح علیہ السلام کی طرف انتساب صحیح نہیں ہے کیونکہ اگر ان کا یہ انتساب صحیح ہوتا، یعنی وہ مسیح کے سچے پیروکار ہوتے تو یہ لوگ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آتے، پھر ان کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا، حضرت عیسیٰ بن مریم رحمہم اللہ پر ایمان لانا ہوتا، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَاِذْ قَالَ عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ یَابَنِیْ اِسْرَآئِیلَ اِنِّی رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِی مِنْ م بَعْدِی اسْمُہُ اَحْمَدُ فَلَمَّا جَائَ ہُمْ بِالْبَیِّنَاتِ قَالُوْا ہٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ، ﴾ (الصف: ۶) ’’اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب مریم کے بیٹے عیسیٰ نے کہا کہ اے بنی اسرائیل! میں تمہارے پاس اللہ کا بھیجا ہوا آیا ہوں (اور) جو (کتاب) تو رات مجھ سے پہلے آچکی ہے اس کی تصدیق کرتا ہوں اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا، ان کی بشارت سناتا ہوں (پھر) جب وہ ان لوگوں کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تو کہنے لگے کہ یہ تو صریح جادو ہے۔‘‘ حضرت مسیح عیسیٰ بن مریم رحمہم اللہ نے انہیں(یعنی اپنی قوم کے لوگوں کو) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی بشارت اسی لیے تو سنائی تھی کہ وہ آپ کے لائے ہوئے دین کو قبول کر لیں بلاشبہ ایسی بشارت جو بے فائدہ اور لغو ہو وہ تو کوئی ادنیٰ درجے کی عقل والا شخص بھی نہیں دے سکتا۔ اس لئے حضرت عیسیٰ بن مریم رحمہم اللہ جیسے اولوالعزم پیغمبر ایسی بشارت کیسے دے سکتے تھے؟ اور یہ بات طے شدہ ہے کہحضرت عیسیٰ بن مریم رحمہم اللہ نے بنی اسرائیل کو جن کی آمد کی بشارت دی تھی، وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اور یہ ارشاد باری تعالیٰ: ﴿فَلَمَّا جَائَ ہُمْ بِالْبَیِّنَاتِ قَالُوْا ہٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ، ﴾ ’’پھر
Flag Counter