Maktaba Wahhabi

196 - 442
کوئی صحیح حدیث ثابت نہیں ہے۔ اسی لیے علامہ موفق رحمہ اللہ صاحب المغنی وغیرہ کا قول ہے کہ وضو کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا سنت ہے، واجب نہیں۔ قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ یا پشت نہیں کرنی چاہیے سوال ۱۳۰: قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ یا پشت کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :اس مسئلہ میں اہل علم کے کئی اقوال ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: بعض اہل علم کا مذہب ہے کہ قضائے حاجت کے وقت غیر عمارت میں (کھلی جگہ) قبلہ کی طرف منہ اور پشت کرنا حرام ہے اور انہوں نے حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((َ لا تَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَۃ بغائط ولابولَ وَلَا تَسْتَدْبِرُوہَا وَلَکِنْ شَرِّقُوا أَوْغَرِّبُوا))( صحیح البخاری: الوضوء، باب لا تسقبل القبلۃ ببول ولا غائط… ح:۱۴۴ وصحیح مسلم، الطہارۃ، باب الاستطابۃ، ح: ۲۶۴ واللفظ لہ۔) ’’جب تم قضائے حاجت کے لیے جاؤ تو بول وبراز کے وقت قبلہ کی طرف منہ اور پشت نہ کرو بلکہ مشرق یا مغرب کی طرف رخ کرو۔‘‘[1] حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب ہم شام گئے تو دیکھا کہ بیت الخلا قبلہ رخ بنائے گئے تھے۔ ہم جب ان سے باہر نکلتے تو اللہ تعالیٰ سے استغفار کر لیتے تھے۔ اہل علم کے اس گروہ نے ابوایوب رضی اللہ عنہ کی اس روایت کو اسے غیر عمارت پر محمول کیا ہے، البتہ عمارت کے اندر رخ اور پشت کرنا جائز ہے کیونکہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ میں ہے: ((رقَیْت یوماُعلیِ بَیْتِ حَفْصَۃَ فَرَأَیْتُ النبیِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْضِی حَاجَتَہُ ِ مُسْتَقْبِلَ الشَّأْم مستدبرالکعبۃِ))( صحیح البخاری، فرض الخمس، باب ماجاء فی بیوت ازواج النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، ح:۳۱۰۲۔) ’’میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر کے اوپر چڑھا تو میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ کی طرف پشت کیے اور شام کی طرف منہ کیے قضائے حاجت کر رہے تھے۔‘‘ بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ عمارت یا غیر عمارت کسی حال میں بھی قبلہ کی طرف منہ یا پشت کرنا جائز نہیں ہے، انہوں نے حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا حدیث سے استدلال کیا ہے۔ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث کے انہوں نے درج ذیل جوابات دیے ہیں: ۱۔ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما کو ممانعت سے پہلے کے زمانہ پر محمول کیا جائے گا۔۲۔ممانعت راجح ہے کیونکہ ممانعت اصل کو بیان کر رہی ہے اور وہ ہے جواز (اور اصل کے مطابق بیان زیادہ بہتر ہے)۔۳۔حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث قولی ہے اور حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما فعلی ہے فعل کو قول کے خلاف پیش نہیں کیا جا سکتا کیونکہ فعل میں خصوصیت، نسیان اور دیگر کئی احتمال ہو سکتے ہیں۔
Flag Counter