Maktaba Wahhabi

216 - 442
وَ امْسَحُوْا بِرُئُ وْسِکُمْ وَ اَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ﴾ (المائدۃ: ۶) ’’مومنو! جب تم نماز پڑھنے کا قصد کرو تو منہ اور کہنیوں تک اپنے ہاتھ دھو لیا کرو اور سر کا مسح کر لیا کرو اور ٹخنوں تک پاؤں دھو لیا کرو۔‘‘ یہ پانی کے ساتھ اصلی صغریٰ طہارت ہے، پھر فرمایا: ﴿وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّہَّرُوْا﴾ ’’اور اگر تمہیں نہانے کی حاجت ہو تو (نہا کر) پاک ہو جایا کرو۔‘‘یہ پانی کے ساتھ اصلی کبریٰ طہارت ہے۔ پھر فرمایا: ﴿وَ اِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ اَوْجَآئَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآئَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا﴾ ’’اور بیماری ہو یا سفر میں ہو یا کوئی تم میں سے بیت الخلاء سے ہو کر آیا ہو یا عورتوں سے ہم بستر ہو اور تمہیں پانی نہ مل سکے تو تیمم کر لو۔‘‘ چنانچہ یہاں تیمم بدل ہے اور ﴿اَوْجَآئَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ﴾ ’’یا کوئی تم میں سے بیت الخلاء سے ہو کر آیا ہو۔‘‘ یہ سبب صغریٰ کا بیان ہے اور ﴿اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآئَ﴾ ’’یا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہو۔‘‘ یہ سبب کبریٰ کا بیان ہے اور اگر اسے ہاتھ سے چھونے پر محمول کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے طہارت صغریٰ کے دو سبب ذکر کیے ہیں اور طہارت کبریٰ کے سبب سے سکوت فرمایا ہے، حالانکہ اس نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ﴿وَ اِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّہَّرُوْا﴾ ’’اور اگر تمہیں نہانے کی حاجت ہو تو (نہا کر) پاک ہو جایا کرو۔‘‘ تو ایسا کہنا قرآنی بلاغت کے خلاف ہے، لہٰذا اس آیت میں عورتوں کو چھونے سے مراد ہم بستر ہونا ہے، تاکہ آیت طہارت کے موجب دواسباب، سبب اکبر اور سبب اصغر پر مشتمل ہو جائے جن میں سے طہارت صغریٰ کا تعلق جسم کے چار اعضا سے ہے جب کہ طہارت کبریٰ کا تعلق سارے بدن سے ہے اور اس کے بدل یعنی تیمم کے ساتھ طہارت کا تعلق صرف دو اعضا سے ہے کیونکہ اس میں طہارت صغریٰ و کبریٰ مساوی ہیں۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ راجح قول یہ ہے کہ عورت کو محض چھونے سے خواہ وہ شہوت کے ساتھ ہو یا بغیر شہوت کے وضو نہیں ٹوٹتا الّایہ کہ اس (انسان) سے کچھ خارج ہو۔ اگر منی خارج ہو تو غسل واجب ہے، جب کہ مذی کے خارج ہونے کی صورت میں آلہ تناسل اور خصیتین کو دھو کر وضو کرنا واجب ہے۔ کیا جنبی آدمی قرآن کو چھو سکتا ہے ؟ سوال ۱۵۴: ایک مدرس جو شاگردوں کو قرآن کریم پڑھاتا ہے، اسے مدرسہ یا کسی قریبی جگہ سے پانی نہیں ملتا تو وہ کیا کرے، جب کہ قرآن مجید کو پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں؟ جواب :جب مدرسہ میں یا اس کے قرب و جوار میں پانی نہ ہو تو مدرس طلبہ کو متنبہ کر دے کہ وہ وضو کر کے آیا کریں کیونکہ قرآن مجید کو پاک آدمی ہی چھو سکتا ہے۔ حدیث حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لکھا تھا: ((اَنْ لاَّ یَمَسَّ الْقُرْآنَ اِلاَّ طَاہِرٌ)) (سنن الدارمی کتاب الطلاق، باب ۳ والنسائی(۵۷۱۸) ’’قرآن کو پاک آدمی ہی ہاتھ لگائے۔‘‘ طاہر سے یہاں مراد وہ آدمی ہے جس کی ناپاکی دور ہوگئی ہو۔ اس کی دلیل وضو، غسل اور تیمم والی آیت کے آخر میں حسب ذیل ارشاد
Flag Counter