Maktaba Wahhabi

229 - 442
ہوں گے۔ الغرض !طہر کا مٹیالا یا پیلا پانی یا داغ یا رطوبت حیض نہیں ہے، لہٰذا وہ نماز سے مانع ہے نہ روزے سے، اور نہ مرد کو اپنی بیوی سے ہم بستری کرنے سے کیونکہ وہ حیض نہیں ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے: ((کُنَّا لَا نَعُدُّ الصُّفْرَۃ والکدرۃَ شَیْئًا)) (صحیح البخاری، الحیض، باب الصفرۃ والکدرۃ فی غیر ایام الحیض، ح۳۲۶۔) ’’ہم مٹیالے اور پیلے رنگ کے پانی کو کچھ شمار نہیں کرتے تھے۔‘‘ اور سنن ابی داؤد کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے ’’طہر کے بعد، مٹیالے اور پیلے پانی کو ہم کچھ شمار نہیں کرتے تھے، اور اس کی سند بھی صحیح ہے۔ لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یقینی طہر کے بعد اس طرح کی چیزیں عورت کے لیے نقصان دہ نہیں ہیں اور نہ نماز ، روزہ اور اس کے شوہر کے اس سے ہم بستر ہونے میں مانع ہیں لیکن واجب ہے کہ عورت جلد بازی سے کام نہ لے حتیٰ کہ وہ طہر کو دیکھ لے کیونکہ بعض عورتیں خون کے ہلکا ہونے اور طہر دیکھنے سے قبل جلدی سے غسل کرلیتی ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بیویاں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس روئی بھیجا کرتی تھیں، جس میں مٹیالے رنگ کا مادہ لگا ہوتا تو آپ ان سے فرماتیں: ((لَا تَعْجَلْنَ حَتّٰی تَرَیْنَ الْفَضَّۃَ الْبَیْضَائَ)) (صحیح البخاری، معلقا، الحیض، باب ۱۹ اقبال المحیض وادبارہ۔) ’’جلدی نہ کرو حتیٰ کہ چاندی کی طرح سفید پانی دیکھ لو۔‘‘ مانع حیض گولیوں اور نفاس کےخون کا کیا حکم ہے ؟ سوال ۱۷۷: مانع حیض گولیوں کے استعمال کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :مانع حیض گولیوں کے استعمال میں کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ صحت کے پہلو سے یہ عورت کے لیے نقصان دہ نہ ہوں اور اس کا شوہر ان کے استعمال کی اجازت دے دے لیکن جہاں تک مجھے معلوم ہے ان گولیوں کا استعمال عورت کے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ خون حیض کا خروج طبعی خروج ہے اور طبعی چیز کو جب اس کے وقت میں خارج ہونے سے روک دیا جائے تو اس سے یقینی طور پر جسم پر نقصان دہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان گولیوں کے استعمال سے نقصان کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس سے اس کی ماہانہ عادت میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ شک میں مبتلا رہتی ہے کہ اسے نماز پڑھنی اور اپنے شوہر سے مقاربت کرنی چاہیے یا نہیں، لہٰذاس بارے میں میں یہ تو نہیں کہتا کہ ان گولیوں کا استعمال حرام ہے، البتہ میں پسند نہیں کرتا کہ عورت ان گولیوں کو استعمال کرے، مبادا اسے کوئی نقصان پہنچے۔ عورت کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی رہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے سال جب ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے تو وہ رو رہی تھیں اور انہوں نے عمرہ کا احرام باندھ رکھا تھا۔ آپ نے فرمایا: ((مَالَکِ؟ لَعَلَّکِ نفست؟ِ قُالت:ُ نَعَمْ قَالَ: ہَذَا شَیئٌ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَی بَنَاتِ آدَمَ۔))( صحیح البخاری، الحیض، باب الامر بالنفساء اذا نفسن، ح: ۲۹۴ وصحیح مسلم، الحج، باب بیان وجوہ الاحرام، ح: ۱۲۱۱ (۱۲۰) واللفظ لہ۔)
Flag Counter