Maktaba Wahhabi

264 - 442
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((وَإِذَا أَمَرْتُکُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ)) (حیح البخاری، الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب الاقتداء بسنن رسول اللّٰه صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، ح:۷۲۸۸ وصحیح مسلم، الحج، باب فرض الحج مرۃ فی العمر، ح: ۱۳۳۷ (۴۱۲)۔) ’’اور جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو تم مقدور بھر اس کی اطاعت بجا لاؤ۔‘‘ خاص اسی مسئلہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَ لِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ﴾ (البقرۃ: ۱۱۵) ’’اور مشرق اور مغرب اللہ ہی کے ہیں سو جدھر تم رخ کرو ادھر اللہ کی ذات ہے۔ بے شک اللہ صاحب وسعت اور باخبر ہے۔‘‘ (۲) یاوہ ایسی جگہ ہوں جہاں ان کے لیے قبلہ کے بارے میں سوال کرنا ممکن ہو مگر وہ کوتاہی وسستی کی وجہ سے کسی سے نہ پوچھیں تو اس حالت میں ان کے لیے اس نماز کی قضا لازم ہوگی، جسے انہوں نے عیر قبلہ رخ ادا کیا ہے، خواہ انہیں اپنی غلطی کا علم نماز ختم کرنے سے پہلے ہو یا بعد میں کیونکہ اس حال میں وہ خود خطا کار ہیں۔ قبلہ کے بارے میں ان سے خطا ہوئی۔ گو انہوں نے جان بوجھ کر قبلہ سے انحراف نہیں کیا لیکن انہوں نے قبلہ کے بارے میں پوچھنے میں سستی وکوتاہی کا مظاہرہ کیا ہے، تاہم اگر قبلہ کی جہت سے معمولی سا انحراف ہو جائے تو یہ ان کے حق میں نقصان دہ شمار نہیں ہوگا، مثلاً: یہ کہ وہ تھوڑا سا دائیں یا بائیں طرف جھک جائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ سے فرمایا تھا: ((مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَۃٌ)) (جامع الترمذی، الصلاۃ، باب ماجاء: ان ما بین المشرق والمغرب قبلۃ: ح: ۳۴۲ وسنن ابن ماجہ، الصلاۃ، باب القبلۃ، ح: ۱۰۱۱۔) ’’مشرق ومغرب کے درمیان قبلہ ہے۔‘‘ جو لوگ کعبہ سے شمال کی طرف ہوں گے، ان سے ہم یہ کہیں گے کہ مشرق ومغرب کے درمیان قبلہ ہے اور جو جنوب کی طرف ہوں گے، ان کے لیے بھی یہی حکم ہے لیکن جو مشرق یا مغرب کی طرف ہوں گے، ان سے ہم یہ کہیں گے کہ شمال و جنوب کے درمیان قبلہ ہے، لہٰذا معمولی سے انحراف سے کوئی اثر اور نقصان نہیں ہوتا۔ یہاں ایک مسئلہ کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ جو شخص مسجد حرام میں ہو اس کے لیے عین کعبہ کی طرف منہ کرنا واجب ہے، محض جہت کعبہ کی طرف نہیں کیونکہ جیسے ہی وہ عین کعبہ سے منحرف ہو گا ویسے ہی وہ قبلہ رخ سے بھی منحرف ہوجائے گا۔ میں نے مسجد حرام میں بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ عین کعبہ کی طرف منہ نہیں کرتے، مثلاً: آپ دیکھیں گے کہ جب صف مستطیل اور طویل ہو تو آپ کو یقینی طور پر معلوم ہو جائے گا کہ ان میں سے بہت سے لوگوں کا عین کعبہ کی طرف رخ نہیں ہوتا ۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے، مسلمانوں کے لیے اس سے بچنا اور اس کی تلافی کرنا واجب ہے کیونکہ اس حالت میں جب وہ نماز اداکریں گے تو غیر قبلہ کی طرف نماز ادا کریں گے۔ نیت دل کے ارادے کے نام ہے،زبان کا اس سے کوئی تعلق نہیں سوال ۲۲۰: زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
Flag Counter