Maktaba Wahhabi

298 - 442
ہمیں اس بارے میں نہیں معلوم کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ۲۳/ رکعات سے زیادہ پڑھی ہوں بلکہ ظاہر اس کے خلاف معلوم ہوتا ہے علاوہ أزیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت کو اس سے قبل بیان کیا جا چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان وغیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے اور بلا شبہ! حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع بھی حجت ہے کیونکہ اس میں وہ خلفائے راشدین بھی ہیں جن کے اتباع کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اور پھر وہ اس امت کے خیرالقرون بھی گردانے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ نماز تراویح کی رکعات میں اجتہاد کی گنجائش ہے، لہٰذا اس مسئلہ کو امت کے انتشار وخلفشار کا سبب نہیں ہونا چاہیے، خصوصاً جب سلف سے اس کے بارے میں مختلف معمولات منقول ہیں اور ایسی کوئی دلیل نہیں جو اس مسئلہ میں اجتہاد سے مانع ہو۔ کسی اہل علم نے اس کے اجتہاد کی مخالفت کرنے والے سے کیا خوب کہا کہ آپ نے میری مخالفت کر کے درحقیقت میری تائید کی ہے کیونکہ ہم دونوں کی رائے یہ ہے کہ اجتہادی مسائل میں انسان جس بات کو حق سمجھے اس کے لیے اس کا اتباع کرنا واجب ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی پسند اور رضا کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے! تراویح میں ختم قرآن کے وقت دعا سوال ۲۷۸: ماہ رمضان کے قیام اللیل میں دعائے ختم قرآن کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :ماہ رمضان کے قیام اللیل میں ختم قرآن کے موقع پر دعا کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کوئی سنت میرے علم میں نہیں ہے اس سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ جو بات ثابت ہے، وہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا یہ عمل ہے کہ وہ جب قرآن مجید ختم کرتے تو اپنے اہل خانہ کو جمع کر کے دعا فرماتے تھے لیکن یہ دعا نماز میں نہیں ہوتی تھی۔ سنت سے اس کا ثبوت نہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں خرابی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جب کسی معین مسجد میں ایسا پروگرام ہوتا ہے تو اس میں لوگ خصوصاً خواتین بھی بہت کثرت سے شرکت کرتی ہیں، اور پھر مسجد سے باہر نکلتے وقت مردوں اور عورتوں میں اختلاط ہوتا ہے جیسا کہ ہر دیکھنے والے کو یہ بات معلوم ہے۔ بعض اہل علم نے لکھا ہے کہ ختم قرآن کے موقع پر دعا مستحب ہے۔ امام اگر رات کے آخری حصہ میں قیام میں قرآن مجید کو ختم کر لے اور وتر میں دعائے قنوت کی جگہ دعا کرے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ قنوت تو بہر صورت مشروع ہے۔ کیا لیلۃ القدر ہر سال ایک ہی رات میں آتی ہے ؟ سوال ۲۷۹: کیا یہ ثابت ہے کہ لیلۃ القدر ہر سال کسی ایک مخصوص رات میں ہوتی ہے یا یہ ایک رات سے دوسری رات میں منتقل ہوتی رہتی ہے؟ جواب :اس میں تو کچھ شک نہیں کہ لیلۃ القدر رمضان ہی کی ایک رات ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّآ اَنزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ﴾ (القدر: ۱) ’’بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل (کرنا شروع) کیا۔‘‘ اور دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ اس نے قرآن مجید کو رمضان میں نازل فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
Flag Counter