Maktaba Wahhabi

309 - 442
کرے؟ اس کے لئے نماز کے بعد سنن مؤکدہ کے علاوہ دیگر نوافل پڑھنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :تمام مسلمانوں کے لیے واجب ہے کہ وہ اذان سنتے ہی فوراً نماز کے لیے مسجد میں آجائیں کیونکہ مؤذن کہتا ہے: (حی علی الصلاۃ) ’’نماز کی طرف آؤ۔‘‘ اس نداء کے بعد اس میں سستی کرنے سے نماز کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔ ملازم کے لیے فرض نماز کے بعد سنن مؤکدہ کے علاوہ نوافل پڑھنا جائز نہیں کیونکہ عقد اجارہ یاملازمت کی وجہ سے اس کے وقت کا مستحق دوسرا انسان ہے، البتہ سنن مؤکدہ ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ عرف وعادت کے مطابق ذمہ دار اصحاب اس بارے میں چشم پوشی سے کام لیتے ہیں۔ واللّٰہ الموفق کیا پہلی ایک یا دو رکعتیں جماعت سے رہ جانے پر فاتحہ کے ساتھ اورسورت بھی ملائی جائے ؟ سوال ۲۹۷: جس شخص کی پہلی ایک رکعت یا دو رکعتیں جماعت سے رہ جائیں تو کیا وہ اسے پورا کرتے ہوئے فاتحہ کے ساتھ کوئی اور سورت بھی پڑھے یا صرف سورۃ الفاتحہ پر اکتفا کرے؟ جواب :صحیح بات یہ ہے کہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد مقتدی جس نماز کو پڑھتا ہے وہ اس کی نماز کا آخری حصہ ہے، لہٰذا جب اس کی چار رکعتوں والی نماز میں سے دو رکعتیں یا ایک رکعت رہ گئی ہو یا نماز مغرب کی ایک رکعت رہ گئی ہو تو ان صورتوں میں اسے صرف سورۂ فاتحہ ہی پڑھنی چاہیے، البتہ نماز فجر کی اگر کوئی ایک رکعت رہ گئی ہو تو اس میں سورۂ فاتحہ کے ساتھ کوئی دوسری سورت بھی ملاکر پڑھنی چاہیے کیونکہ نماز فجر کی دونوں رکعتوں میں سورۂ فاتحہ کے ساتھ کوئی اور سورت بھی پڑھی جاتی ہے۔ جب امام آخری تشہد میں ہواور دوسری جماعت کی امید ہو تو انتظار جائز ہے سوال ۲۹۸: ایک نمازی مسجد میں اس وقت داخل ہوا جب امام آخری تشہد میں تھا، کیا وہ جماعت میں شامل ہو جائے یا دوسری جماعت کا انتظار کرے؟ فتویٰ عطا فرمائیں۔ جزاکم اللّٰہ خیرا جواب :جب انسان مسجد میں اس وقت داخل ہو جب امام آخری تشہد میں ہو تو اگر اسے دوسری جماعت کی امید ہو تو پھر اس کے ساتھ شامل نہ ہو اور اگر دوسری جماعت کی امید نہ ہو تو پھر اسی کے ساتھ شامل ہو جائے کیونکہ راجح قول کے مطابق نماز باجماعت کے لیے کم از کم ایک رکعت کا پا لینا ضروری ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حسب ذیل فرمان کے عموم سے معلوم ہوتا ہے: ((مَنْ اَدْرَکَ رَکْعَۃً مِنَ الصَّلَاۃِ فَقَدْ اَدْرَکَ الصَّلَاۃَ)) (صحیح البخاری، المواقیت، باب من ادرک من الصلاۃ رکعۃ، ح: ۵۸۰ وصحیح مسلم، المساجد، باب من ادرک رکعۃ من الصلاۃ فقد ادرک تلک الصلاۃ، ح: ۶۰۷۔) ’’جس نے نماز کی ایک رکعت پا لی، گویا اس نے نماز کو پا لیا۔‘‘ جس طرح ایک رکعت کو پائے بغیر جمعہ کو نہیں پایا جا سکتا، اسی طرح ایک رکعت کے بغیر جماعت کو بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی امام کو آخری تشہد میں پائے تو اس نے جماعت کو نہیں پایا، لہٰذا اسے انتظار کرنا چاہیے تاکہ وہ دوسری متوقع جماعت کے ساتھ نماز ادا کر سکے اور اگر اسے دوسری جماعت کی امید نہ ہو تو اس کا جماعت کے ساتھ شامل ہو جانا تاکہ باقی تشہد کو پا لے، امام سے الگ
Flag Counter