Maktaba Wahhabi

331 - 442
’’اور تمہارے پروردگار نے فرمایا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری (دعا) قبول کروں گا۔‘‘ اللہ سبحانہ و تعالیٰ حکیم ہے اسی حکمت ومصلحت کے پیش نظر کبھی کبھار وہ بارش کو مؤخر کر دیتا ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کے کس قدر شدید محتاج ہیں اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی ملجأ اور مأویٰ نہیں ۔ ان ناگفتہ بہ حالات میں اللہ تعالیٰ لوگوں کی دعا کو بارش کے نازل ہونے کا سبب بنا دیتا ہے اور اگر لوگوں کی دعا کے باوجود بارش نہ ہو تو اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی کوئی نہ کوئی حکمت ومصلحت پنہاں ہوتی ہے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ زیادہ علم والا، زیادہ حکمت والا اور اپنے بندوں پر اس قدر رحم فرمانے والا ہے کہ وہ بندے خود بھی اپنے اوپر اس طرح رحم نہیں کر سکتے جس طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان کو رحمت سے نوازتا رہتا ہے۔ بسا اوقات انسان بہت دعا کرتا ہے مگر وہ قبول نہیں ہوتی، پھر دعا کرتا ہے اور وہ قبول نہیں ہوتی اس کے بعدوہ پھر دعا کرتا ہے اور وہ قبول نہیں ہوتی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((یُسْتَجَابُ لِأَحَدِکُمْ مَا لَمْ یَعْجَلْ یَقُولُ دَعَوْتُ فَلَمْ یُسْتَجَبْ لِی)) (صحیح البخاری ، الدعوات ، باب یستجاب للعبد ما لم یجعل ، ح: ۲۷۳۵۔) ’’تم میں سے ایک شخص کی دعا کو قبول کیا جاتا ہے، جب تک وہ جلدی نہ کرے (جلدی کا مفہوم یہ ہے) کہ وہ کہے کہ میں نے دعا تو کی تھی مگر میری دعا قبول نہیں ہوئی۔‘‘ اس صورت میں وہ اکتا کر دعا ہی کو ترک کر دیتا ہے۔ والعیاذ باللّٰہ! حالانکہ انسان جب دعا کرتا ہے تو اسے ایک ایک لفظ کا اجر و ثواب ملتا ہے کیونکہ دعا کرنا تو عبادت ہے، لہٰذا دعا کرنے والا ہر حال میں فائدے میں ہے بلکہ حدیث میں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس شخص نے دعا کی، اسے تین باتوں میں سے ایک ضرور حاصل ہو جاتی ہے: (۱) یاتواس کی دعا قبول ہو جاتی ہے یا (۲) اس سے کوئی بہت بڑی مصیبت دور کر دی جاتی ہے یا (۳) اسے قیامت کے دن کے لیے ذخیرہ کر لیا جائے گا۔[1]میں اپنے اس بھائی کو جس نے یہ الفاظ کہے ہیں کہ اگر تم بارش کی دعا نہ بھی کرو تو بارش نازل ہو جائے گی، یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرے کیونکہ یہ بہت بڑا گناہ ہے (اور) دعاء کرنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی صریح خلاف ورزی ہے اور اللہ سے دشمنی اور مخالفت مول لینی ہے۔ کوئی شخص اپنے دفن ہونے کی جگہ کے متعلق وصیت کرے تو…؟ سوال ۳۳۹: جو شخص یہ وصیت کرے کہ اس کے فوت ہو جانے کے بعد اسے فلاں جگہ دفن کیا جائے تو کیا اس کی وصیت پر عمل کیا جائے گا؟ جواب :پہلی بات یہ ہے کہ اس سے یہ ضرور پوچھا جائے کہ اس نے اس جگہ کا انتخاب کیوں کیا ہے؟، اس نے شاید اس جگہ کا اس لیے انتخاب کیا ہو کہ وہاں کوئی فرضی اور جھوٹی قبر ہو یا کوئی ایسی قبر ہو جس پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک ہوتا ہو یا اس کی وصیت کا اسی طرح کا کوئی اور حرام سبب ہو تو اس صورت میں ایسی وصیت کے مطابق عمل جائز نہیں ، اس وصیت کا اعتبار نہ کرتے ہوئے اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا بشرطیکہ وہ خود بھی مسلمان ہو۔ اگر اس نے اس طرح کی غرض کے سوا کسی اور غرض سے وصیت کی ہے، مثلاً: یہ کہ اسے اس شہر میں دفن
Flag Counter