Maktaba Wahhabi

332 - 442
کیا جائے جس میں اس نے زندگی بسر کی ہے تو اس صورت میں وصیت کے مطابق عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس میں مال کا ضیاع نہ ہو، یعنی اگر ایسا کرنے میں بہت سامال خرچ کرنا پڑتا ہو تو بھی اس کی وصیت کے مطابق عمل نہ کیا جائے کیونکہ اگر زمین مسلمانوں کی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی ساری ہی زمین ایک جیسی ہے۔ ’’لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ‘‘ کی تلقین کب کی جائے؟ سوال ۲۴۰: تلقین کا وقت کون سا ہے؟ جواب :تلقین موت کے وقت کی جائے، یعنی جب انسان موت وحیات کی آخری کشمکش میں مبتلا ہو تو اسے ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کی تلقین کی جائے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابو طالب کی موت کے وقت، ان کے پاس تشریف لا کر فرمایا تھا: ((یَا عَمِّ قُلْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللّٰہُ کَلِمَۃً أَحاجُ لَکَ بِہَا عِنْدَ اللّٰہِ)) (صحیح البخاری، الجنائز، باب اذا قال المشرک عند الموت لا الہ الا اللّٰه ، ح: ۱۳۶۰ وصحیح مسلم، الایمان، باب الدلیل علی صحۃ اسلام من حضرہ الموت… ح:۲۴۔) ’’اے چچا! لا الٰہ الا اللہ کلمہ توحید پڑھ لو، یہ ایک ایسا کلمہ ہے کہ اس کی وجہ سے میں اللہ کے یہاں تمہارے بارے میں گواہی دے سکوں گا یا جسے بطور حجت پیش کرسکوں گا۔‘‘ لیکن آپ کے چچا ابو طالب نے، والعیاذ باللّٰہ یہ کلمہ نہ کہا اور وہ مشرک ہی فوت ہوئے۔ دفن کے بعد تلقین بدعت ہے کیونکہ اس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث ثابت نہیں ہے، لہٰذا اس کے بجائے وہ کام کرنے چاہئیں جنہیں امام ابوداود نے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی میت کے دفن کرنے سے فارغ ہوتے تو آپ اس کی قبر پر کھڑے ہو جاتے اور فرماتے: ((اِسْتَغْفِرُوا لِاَخِیْکُمْ وَاسْأَلُوا لَہُ التَّثْبِیْتِ فَاِنَّہُ الْآنَ یُسْأَلُ)) (سنن ابی داود، الجنائز، باب الاستغفار عند القبر للمیت فی وقت الانصراف، ح:۳۲۲۱۔) ’’اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کی ثابت قدمی کے لیے دعا کرو کہ اس سے اب سوال کیا جا رہا ہے۔‘‘ رہا قبر کے پاس قرآن مجید پڑھنا یا میت کو قبور میں تلقین کرنا، تو یہ بدعت اور بے اصل کام ہے۔ کیا رشتہ داروں کے انتظار کی وجہ سے تدفین میں تاخیر جائز ہے ؟ سوال ۳۴۱: دور دراز کے مقامات سے بعض رشتہ داروں کے آنے کی وجہ سے میت کے دفن میں تاخیر کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :حکم شریعت یہ ہے کہ میت کی تجہیز و تکفین اور تدفین میں جلدی کی جائے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((أَسْرِعُوا بِالْجِنَازَۃِ فَإِنْ تَکُ صَالِحَۃً فَخَیْرٌ تُقَدِّمُونَہَا الیہ وَإِنْ تکُ سِوَی ذَلِکَ فَشَرٌّ تَضَعُونَہُ عَنْ رِقَابِکُمْ)) (صحیح البخاری، باب السرعۃ فی الجنازۃ، ح:۱۳۱۵، وصحیح مسلم، الجنائز، باب السرعۃ فی الجنازۃ، ح: ۹۴۴۔)
Flag Counter