Maktaba Wahhabi

349 - 442
بلاشبہ اس کے لیے اس مال کو اپنے قبضے میں لینا اور اس سے نفع اٹھانا ممکن نہیں، لہٰذا اس مال پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی لیکن جب وہ اسے اپنے قبضے میں لے لے تو بعض اہل علم نے کہا ہے کہ وہ از سر نو ایک سال انتظار کرے اور بعض نے کہا ہے کہ وہ ایک سال کی زکوٰۃ ادا کر دے اور جب اگلا سال شروع ہو جائے تو احتیاطاً اس کی زکوٰۃ بھی ادا کر دے۔ واللّٰہ اعلم کیا میت کا قرض زکوٰۃ سےادا کیا جا سکتا ہے ؟ سوال ۳۵۸: کیا اس میت کا قرض زکوٰۃ سے ادا کیا جا سکتا ہے جس نے کوئی مال نہ چھوڑا ہو؟ جواب :ابن عبدالبر اور ابوعبید رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ زکوٰۃ سے میت کا قرض ادا نہ کیا جائے اس پر اجماع ہے لیکن امر واقع یہ ہے کہ اس مسئلے میں اختلاف ہے۔ اکثر علماء نے یہی کہا ہے کہ زکوٰۃ سے میت کا قرض ادا نہ کیا جائے کیونکہ میت تو دار آخرت کی طرف منتقل ہو کر جاچکا ہے اس لئے قرض کی وجہ سے اب اسے وہ ذلت اور رسوائی حاصل نہیں ہوگی جو زندوں کو حاصل ہوتی ہے اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم زکوٰۃ کی رقم سے مردوں کا قرض ادا نہیں فرمایا کرتے تھے اورجب اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتوحات سے سرفراز فرما دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اموال غنیمت سے قرض ادا فرمایا کرتے تھے، اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ زکوٰۃ سے میت کا قرض ادا کرنا صحیح نہیں ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ میت نے جب لوگوں سے قرض لیا اور وہ اسے ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس کی طرف سے اسے ادا فرما دے گا اور اگر وہ اسے ضائع کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے، قرض اس کے ذمے باقی رہے گا جو قیامت کے دن اس سے وصول کر لیا جائے گا۔ میرے نزدیک یہ قول زیادہ صحیح ہے کہ زکوٰۃ سے میت کا قرض ادا کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فرق کیا جائے گا کہ اگر زندہ لوگ فقر یا جہاد یا تاوان وغیرہ کی وجہ سے ضرورت مند ہوں تو پھر زکوٰۃ سے میت کا قرض ادا نہیں کیا جائے گا اور اگر زندہ لوگ ضرورت مند نہ ہوں تو پھر کوئی حرج نہیں کہ ہم ایسے فوت شدگان کے قرض کو زکوٰۃ کی رقم سے ادا کر دیں جنہوں نے اپنے پیچھے کوئی مال نہ چھوڑا ہو۔ دونوں اقوال میں سے یہ آخری قول شاید مبنی براعتدال ہے۔ کیا مقروض سےصدقہ ساقط ہو جاتاہے ؟ سوال ۳۵۹: کیا مقروض کا صدقہ کرنا صحیح ہے؟ مقروض سے کون کون سے شرعی حقوق ساقط ہو جاتے ہیں؟ جواب :صدقہ کرنا ان امور میں سے ہے جن کا شرعاً حکم دیا گیا ہے اور یہ بندگان الٰہی کے ساتھ احسان ہے، جب کہ درست طریقے سے صدقہ کیا گیا ہو۔ صدقے سے انسان کو ثواب ملتا ہے اور قیامت والے دن ہر شخص اپنے صدقے کے سائے میں ہوگااور صدقہ ہرحال میں مقبول ہوتا ہے، خواہ انسان پر قرض ہو یا نہ ہو بشرطیکہ قبولیت کی شرطوں کی مطابق ہو اور وہ یہ کہ صدقہ اللہ عزوجل کے لیے اخلاص کے ساتھ کیا گیا ہو، حلال کمائی سے ہو اور صحیح جگہ پر صدقہ کیا جائے۔ شرعی دلائل کے تقاضے کے مطابق انہی شرائط کے ساتھ صدقہ مقبول ہوگا۔ اس سلسلہ میں یہ شرط نہیں ہے کہ انسان پر قرض نہ ہو لیکن اگر قرض اس کے سارے مال کے بقدر ہو تو حکمت اور عقل کا تقاضا یہ نہیں کہ انسان صدقہ کرے، جو کہ مستحب ہے واجب نہیں اور قرض کو ترک کر دے جو واجب ہے، اس کو چاہئے پہلے واجب کو ادا کرے پھر صدقہ کرنا
Flag Counter