Maktaba Wahhabi

361 - 442
طور پر وہ اس کی استطاعت رکھتا ہو، مثلاً: باپ کے لیے یہ واجب ہے جب بیٹے کو شادی کی ضرورت ہوکہ وہ اپنے بیٹے کی شادی کا بندوبست کرے، لیکن اس کے پاس شادی کے لیے اخراجات نہ ہوں۔ میں نے سنا ہے کہ بعض باپ جو جوانی کے دور کی اپنی حالت کو بھول گئے ہیں، ان کا بیٹا جب ان سے شادی کے لیے کہتا ہے تو وہ ا سے جواب دیتے ہیں کہ اپنی پیشانی کا پسینہ بہاؤ، یعنی خوب محنت کر کے کماؤ اور شادی کر لو۔ یہ جائز نہیں اگر باپ بیٹے کی شادی کے اخراجات برداشت کرنے کی قدرت رکھتا ہو تو اس صورت میں اس کا یہ طرز عمل حرام ہے۔ اگر مالی استطاعت کے باوجود وہ اپنے بیٹے کی شادی پر خرچ نہیں کرتا، تو اس کا بیٹا روز قیامت اس کا خصم بن کر اس سے اپنے حق کا مطالبہ کرے گا۔ سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ اگر ایک شخص کے چند بیٹے ہوں، ان میں سے بعض شادی کی عمر کو پہنچ گئے ہوں اور ان کی اس نے شادی کر دی ہو اور کچھ بیٹے چھوٹے ہوں تو کیا اس شخص کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے چھوٹے بیٹوں کی شادی کے مہر کے لیے کچھ مال کی وصیت کرے کیونکہ اس نے اپنے بڑے بیٹوں کی شادی پر مال خرچ کرچکاہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب آدمی اپنے بڑے بیٹوں کی شادی پر خرچ کرے تو اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے چھوٹے بچوں کے لیے وصیت کرے، البتہ یہ واجب ہے کہ جب ان میں سے کوئی شادی کی عمر کو پہنچ جائے، تو اس کی شادی پر بھی اسی طرح خرچ کرے جس طرح اس نے پہلے بیٹے کی شادی پر خرچ کیا تھا۔ اپنی موت کے بعد اس کے لیے وصیت کرنا حرام ہے اور اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے: ((اِنَّ اللّٰہَ قَدْ اَعْطٰی کُلَّ ذِی حَقٍّ حَقَّہُ فَلَا وَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ)) (سنن ابی داود، الوصایا، باب ماجاء فی الوصیۃ للوارث، ح: ۲۸۷۰ وجامع الترمذی، الوصایا، باب ماجاء لا وصیۃ لوارث، ح: ۲۱۲۰۔) ’’بے شک اللہ تعالیٰ ہر حق دار کو اس کا حق عطا فرما دیا ہے، لہٰذا وارث کے لیے وصیت نہیں ہے۔‘‘ مجاہدین کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے سوال ۳۸۵: کیا مجاہدین کو زکوٰۃ دینا جائز ہے؟ جواب :اللہ تعالیٰ نے اہل زکوٰۃ کی اصناف میں مجاہدین فی سبیل اللہ کو بھی شمارکیا ہے، لہٰذا یہ جائز ہے کہ ہم مجاہدین فی سبیل اللہ کو زکوٰۃ دیں لیکن سوال یہ ہے کہ مجاہد فی سبیل اللہ کون ہے؟ مجاہد فی سبیل اللہ کی وضاحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت بیان فرما دی تھی جب آپ سے یہ مسئلہ پوچھا گیا کہ ایک شخص شجاعت کے لیے لڑتا ہے، ایک شخص حمیت کی خاطر لڑتا ہے اور ایک شخص ناموری کے لیے لڑتا ہے، تو ان میں سے کون مجاہد فی سبیل اللہ ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس بارے میں ایک سیدھا اور مبنی برعدل وانصاف معیار عطا فرما دیا، آپؐ نے فرمایا: ((مَنْ قَاتَلَ لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ہِیَ الْعُلْیَا فَہُوَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ)) (صحیح البخاری، الجہاد والسیر، باب من قاتل لتکون کلمۃ اللّٰه ہی العلیا، ح: ۲۸۱۰۔) ’’جو شخص اس لیے قتال کرے تاکہ اللہ کے کلمے کو سر بلندی حاصل ہو تو وہ فی سبیل اللہ ہے۔‘‘ جو شخص بھی اس لیے قتال کرے تاکہ اللہ تعالیٰ کے کلمے کو سر بلندی حاصل ہو، اللہ تعالیٰ کی شریعت کو نافذ کیا جائے اور کافر ممالک میں بھی اللہ تعالیٰ کے دین کو پھیلا دیا جائے، تو وہ مجاہد فی سبیل اللہ ہے، اسے زکوٰۃ دی جا سکتی ہے، اس کے علاوہ اسے جہاد میں اعانت کے لیے رقوم
Flag Counter